غلط فہمی
کویت پر عراقی قبضہ کے بعد کویت کا حکمراں خاندان سعودی عرب چلا گیا تھا۔ دوبارہ جب کویت عراقی قبضہ سے آزاد ہوا تو کویت کے ولی عہد سعد الصباح ۴ مارچ ۱۹۹۱ کو اپنے وطن واپس آئے۔ کویت ائیر پورٹ پر وہ اپنے ہوائی جہاز سے اترے تو ایک واقعہ ہوا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر نے فوراً اس کا فوٹو لے لیا۔ یہ فوٹو ٹائمس آف انڈیا ، اور ہندستان ٹائمس (۶ مارچ ۱۹۹۱) کے صفحہ اول پر شائع ہوا ہے۔ مقابل کے صفحہ پر ہم اس کو نقل کر رہے ہیں۔
اس تصویر کے نیچے جو تشریحی الفاظ چھاپے گئے ہیں وہ یہ ہیں:" کویت کے ولی عہد سعد الصباح خلیج کی جنگ کے بعد ۴ مارچ کو جلا وطنی سے واپس آئے ۔ ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد کویت ایئر پورٹ پر وہ اپنے وطن کی زمین کو چوم رہے ہیں"۔ امریکی نیوز ایجنسی کے نمائندہ نے دیکھا کہ سعد الصباح سات مہینہ کے بعد اپنے وطن واپس آئے تو ہوائی جہاز سے باہر آنے کے بعد انھوں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی۔ اس نے اپنے ذہن کے تحت سمجھا کہ بچھڑے ہوئے وطن کو دوبارہ پا کر وہ اس کی زمین کو چوم رہے ہیں ۔ حالاں کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ انھیں اللہ کا انعام یاد آیا اور وہ سجدۂ شکر کے طور پر زمین پر گر پڑے۔ سعد الصباح کے لیے وہ اللہ کے سامنےمومنا نہ سجدہ تھا،مگر غیر مسلم اخبار نویس کے ذہن میں وہ زمین کا سجدہ بن گیا۔
انسانوں کے درمیان اکثر غلط فہمیاں اسی طرح پیدا ہوتی ہیں۔ غلط فہمی حقیقۃ ً غلط توجیہہ کا دوسرا نام ہے۔ آدمی دوسرے کے بارے میں ایک بات سنتا ہے یا دوسرے کے کسی واقعہ کو دیکھتاہے۔ اور پھر اپنے ذاتی ذہن کے مطابق بطور خود اس کو ایک معنی پہنا دیتا ہے۔
ایسے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی نے جو کچھ دیکھا یا سنا ہے، اس کے بارے میں وہ مزید تحقیق کر کے پوری بات معلوم کرے۔ اور پھر پوری معلومات کی روشنی میں کوئی رائے قائم کرے مگر آدمی ایسا نہیں کرتا۔ وہ پیش آمدہ معاملے کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ طور پر ایک رائے قائم کر لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھیانک غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ وہ "سجدۂ الہی " کو "سجدہ ٔزمین" سمجھ لیتا ہے۔ وہ ایک موحدانہ واقعہ کو مشرکانہ واقعہ بنا دیتا ہے۔
ایسا اگر جان بوجھ کر کیا جائے تو وہ بہتان ہے جو اللہ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے۔ تاہم اگر حقیقت حال آدمی کے علم میں نہ ہو تب بھی وہ یقینی طور پر قصور وار ہے۔ کیوں کہ شریعت میں اس قسم کی بات کی تحقیق کا لازمی حکم دیا گیا ہے ۔ ایسے کسی معاملے میں آدمی اگر اپنی زبان کھولنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پہلے اس کی ضروری تحقیق کرے۔ اور اگر وہ کسی وجہ سے تحقیق نہیں کر سکتا ہے۔ تو اس کو چاہیےکہ وہ اس معاملے میں چپ رہے ،نہ کہ ناکافی معلومات کو لے کر اس پر بولنے لگے۔