خبر نامہ اسلامی مرکز  ۷۲

 ۱۔مسٹرشاہد چودھری نے ۱۴ فروری ۱۹۹۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویولیا۔ ان کا تعلق جس پر چہ سے ہے وہ بیک وقت دو زبانوں میں چھپتا ہے۔ ہندی میں اس کا نام"  مایا "ہے اور انگریزی میں اس کا نام "پر وب انڈیا "ہے۔ انٹرویو کا تعلق زیادہ تر خلیج کے مسئلہ سے تھا۔

۲۔اندر دهنُش ویڈیو میگزین (نئی دہلی )کی ٹیم ۱۵ فروری ۱۹۹۱ کو اسلامی مرکز میں آئی اور اپنے ویڈ یو میگزین کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ پندرہ منٹ کا انٹرویو تھا۔ سوال وجواب زیادہ تر بابری مسجد کے مسئلہ کے بارے  میں تھے۔

۳۔"خاتون اسلام"کا عربی ترجمہ اضافہ کے ساتھ تیار ہو گیا ہے۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اور مولانا رئیس احمد ندوی نے کیا ہے۔ اس میں کچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ عنقریب اس کو چھپوایا جاسکے گا۔

۴۔نئی دہلی کے ایک انگریزی ماہنامہ (Indian Indications) نے مسلم مسائل پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو دو صفحات پر اس کے شمارہ فروری ۱۹۹۱ میں شائع ہوا ہے۔

بنگلور کے حلقہ الرسالہ  نے " انسان اپنے آپ کو پہچان" اور"حقیقت کی تلاش" کاترجمہ کنٹراز بان میں چھپوایا۔ بنگلور میں غیر مسلم حضرات کا ایک کتابوں کا بڑا اسٹور ہے جس کا نام سپنا بک اسٹور ہے۔ ان کو یہ کتا بیں دکھائی گئیں۔ انھوں نے پسند کر کے کچھ کتا بیں اپنے یہاں رکھیں ۔ یہ کتا بیں جلد ہی فروخت ہوگئیں۔ خود صاحب اسٹور نے بھی ان کو پسند کیا۔ چنانچہ انھوں نے سارا اسٹاک لے لیا۔ انھوں نے بتایا کہ لوگوں نے ان کتابوں کو بہت پسند کیا ۔ اور بہت کم مدت میں ساری کتابیں فروخت ہو گئیں۔

۵۔ملیالم پرچوں میں برابر الرسالہ کے مضامین ترجمہ کر کے شائع کیے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملیالم زبان میں مرکز کی کئی کتابوں کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ مثلاً : مذہب اور جدید چیلنج، حقیقت کی تلاش ، اسلام کا تعارف، پیغمبر انقلاب ، اسلام اور عصر حاضر، تاریخ کا سبق ۔وغیرہ پندرہ سال پہلے الرسالہ کی حقیقت پسندانہ پکار بالکل اجنبی معلوم ہوتی تھی ۔ مگر آج تمام لوگ اسی کی بولی بولنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر مولا نا علی میاں پہلے جذباتی اقدام کے وکیل تھے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے رہنمائی اقبال کے اس شعرمیں تھی کہ :

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق             عقل ہے محو تماشا ئے لب بام ابھی

 اب مولانا علی میاں کا بیان خلیج کے المیہ کے ذیل میں تعمیر حیات (۱۰ مارچ ۱۹۹۱)میں چھپا ہے۔ وہ موجودہ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب بتاتے ہوئے کہتے ہیں : صدام حسین کے اقدام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ اسلام کی شہرت اور دعوت کو نقصان پہنچا۔ اسلام کا تعارف کرانے والوں کو آزمائش میں مبتلا ہونا پڑا۔ حالیہ واقعات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ مسلمانوں میں شعور کی کمی ہے اور جذباتیت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ یہاں تحریکوں کو چلانے میں جذبات کو برانگیختہ کرنے سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ پورے برصغیرمیں یہ کمزوری ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مغربی طاقت کے خلاف زور دار لفظ بول دے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے۔ ہر لفظ جس میں خطر پسندی ہو اسے سن کر مسلمان دیوانے ہو جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ نفع و نقصان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور احتساب کیا جائے (صفحہ ۱۳) مولا ناعلی میاں کے یہ الفاظ بلا اعلان اپنی غلطی کا اعتراف اور الرسالہ کے پیغام کی بالواسطہ تصدیق ہیں۔

۷۔دعوتی جذبہ کے تحت الحمد للہ بہت سے لوگ دوسروں کے نامہ اپنی طرف سے الرسالہ جاری کراتے رہتے ہیں۔ مثلاً ناگپور کے جناب ایم شیخ نے اپنی طرف سے دس آدمیوں کے نام الرسالہ اردو، انگریزی، ہندی ایک سال کے لیے جاری کرایا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کار خیر ہے۔ اور دوسروں کے لیے بہترین مثال بھی ہے۔

۸۔الر سالہ کے قارئین خاموشی سے ہر جگہ اسلامی پیغام کی اشاعت میں مشغول ہیں۔ مثلاً جناب بدر الدین احمد مراد آبادی نے بتایا کہ ایک ہندو فرم کے ساتھ ان کے کاروباری تعلقات ہیں۔ وہاں انھیں اکثر جانا ہوتا ہے۔ جب وہ جاتے ہیں تو فرم کے مالک (مسٹر ونود کمار) کو الرسالہ کا ایک دو مضمون ضرور سناتے ہیں۔ وہ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں لوگ پورے ملک میں کر رہے ہیں۔

۹۔نئی دہلی کے ہندی میگزین راشٹریہ وشواس (ا ۳ مارچ ۱۹۹۱) نے الرسالہ کا ایک مضمون اپنے کالموں میں نقل کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ہندوواد : پنر جاگرن میں ورودھ بھاس ۔ یہ اس مضمون کا ہندی ترجمہ ہے جو الرسالہ (ستمبر ۱۹۹۰) میں صفحہ ۱۴ پر ایک مشورہ کے عنوان سے چھپا تھا۔

۱۰۔حکومت ہند کی منسٹری آف ایجو کیشن کی طرف سے معیاری قومی کتابوں پر دو ضخیم جلدیں چھپی ہیں جو بذریعہ ڈاک ہمیں ملی ہیں :

National catalogue of international standard

books number title 1985-1986

National Catalogue of ISBN titles 1986-1087

ان دونوں مجلدات میں اسلامی مرکز کی کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔ اول الذکر میں اس کو صفحہ ۲۴۴ پر دیکھا جا سکتا ہے اور ثانی الذکر میں صفحہ  ۱۸۷ سے  ۱۹۰ تک۔

۱۱۔انو و بھا آرگنائزیشن کی طرف سے اودے پور (راج سمند) میں ۱۷- ۲۱ فروری ۱۹۹۱ کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کی تھیم (Peace & non-violent action) تھی۔ اس موقع پر اسلامی مرکز کو مدعو کیا گیا تھا۔ مرکز کی طرف سے ڈاکٹر ثانی اثنین خاں نے شرکت کی۔ اور اسلامی نقطہ ٔنظر پر ایک مقالہ پیش کیا۔ مقالہ کافی پسند کیا گیا۔

۱۲۔روم کا ایک ادارہ comunita di Sant Egidio جو وٹیکن کے ماتحت  ہے۔  اس کے ایک ذمہ دار (Father Paolo Dall oglio) اسلامی مرکز  میں ۳۰ مارچ ۱۹۹۱ کو تشریف لائے انھوں نے اسلام اور مسیحیت کے موضوع پر تبادلۂ خیال کیا بعد میں ان کو اسلامی مرکز کا انگریزی لٹریچر پیش کیا گیا۔ انھوں نے اسلامی مرکز کی بعض کتابوں کا اطالوی زبان میں ترجمہ کرنے کی خواہش کی جس کی ان کو اجازت دے دی گئی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom