پہچان کا فرق
مکی دور کے آخر میں جو واقعات پیش آئے ، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک بار قریش مکہ کے سردار کعبہ کے اندر جمع ہوئے ۔ انھوں نے باہمی مشورہ سے یہ طے کیا کہ محمد کو بلا کر ان کے سامنے کچھ مطالبے رکھے جائیں۔ اگر وہ ان مطالبوں کو پورا کر دیں تو ہم لوگ ان کا پیغمبر ہونا مان لیں ۔ اور اگر وہ ان مطالبوں کو پورا نہ کریں تو ہمارے لیے ان کو رد کرنے کا معقول عذر ہو جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ اس موقع پر انھوں نے آپ سے جو مطالبے کیے ، ان میں سے ایک مطالبہ یہ تھا :
وَلْيَبْعَثْ لنا من مضى من آبَائِنَا، وَليكن فِيمَا يُبْعَثُ لَنَا مِنْهُمْ قُصَّيُّ بْنُ كِلَابٍ، فَإِنَّهُ كَانَ شَيْخًا صَدُوقًا فَنَسْأَلَهُمْ عَمَّا تَقُولُ: أَحَقٌّ هُوَ أَمْ بَاطِلٌ؟ (سيرة ابن كثير، المجلد الاول ، صفحہ ۴۸۰)
(اپنے رب سے کہیے) وہ ہمارے باپ دادا کو زندہ کر دے جو کہ گزر گئے ۔ اور جن کو وہ زندہ کرے ان میں قصی بن کلاب بھی ضرور ہوں، کیوں کہ وہ بزرگ اور سچے تھے ۔ پس ہم ان سے اس کی بابت پوچھیں جو تم کہتے ہو کہ وہ حق ہے یا باطل ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام بزرگوں سے زیادہ بزرگ اور تمام سچے لوگوں سے زیادہ سچے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قدیم مکہ کے لوگوں کو قصی بن کلاب کا بزرگ اور سچا ہونا سمجھ میں آیا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بزرگ اور سچا ہونا ان کی سمجھ میں نہ آسکا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قصی بن کلاب کی شخصیت ایک گزری ہوئی شخصیت تھی ۔ زمانے کے ساتھ ان کی حیثیت لوگوں کی نظر میں مسلم ہو چکی تھی۔ اس کے مقابلےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک معاصر شخصیت تھی ۔ آپ کی بزرگی اور سچائی، اپنی تمام تر رفعتوں کے باوجود، ابھی ایک شخص کے اندرونی جوہر کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس وقت تک وہ خارجی تاریخ کے ذریعہ معروف و مسلم نہیں بنی تھی ۔
اہل کفر صرف خارجی تاریخ کو دیکھ سکتے تھے ، وہ پیغمبر کو پہچاننے میں ناکام رہے۔ اہل ایمان نے اندرونی جوہر کی سطح پر پہچانا، اس لیے وہ پیغمبر کو فوراً پہچان گئے اور آپ پر ایمان لائے۔ آنکھ والا صرف وہ ہے جو کسی انسان کو اس کے جوہر کی بنیاد پر پہنچانے ۔ وہ شخص اندھا ہے جو کسی انسان کو صرف اس وقت پہچانے جب کہ اس کے گرد تاریخ کی تصدیقات جمع ہو چکی ہوں ۔