سیاست نہیں آخرت
یہ ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ کا واقعہ ہے ۔ مولانا سید اسعد مدنی ، صدر جمعیۃ علماء ہند مصر اور سعودی عرب کے سفر سے واپس لوٹے تھے۔ مسجد عبد النبی (نئی دہلی) میں ایک مجلس تھی۔ لوگ مولانا سے سوال کر رہے تھے اور مولانا لوگوں کو ان کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ سوالات کے دوران ایک صاحب نے پوچھا: مولانا موجودہ حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ مولانا اسعد مدنی نے اس کے جواب میں کہا :
"مسلمان جب تک سیاست کے غم میں مبتلا رہے گا، وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ اسلام کی نہایت غلط تشریح ہے کہ انبیا ءعلیہم السّلام سیاسی نظام قائم کرنے کے لیے آتے تھے۔ انبیاء کے سامنے اصلاً آخرت ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کو خدا کے غضب سے ڈراتے تھے ۔ ان کا حال اس باپ کا سا ہوتا تھا جس کا لڑکا آگ کے شعلہ میں گر رہا ہو اور وہ اس کو اس سے کھینچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا نقصان مسلم لیگ نے پہونچایا ہے۔ تقسیم کی تحریک نے نفرت کی جو آگ پھیلائی، اس نے ملک کے دونوں فرقوں کوایک دوسرے سے اتنا دور کر دیا کہ اب ہماری کوئی بات صحیح روشنی میں دیکھی نہیں جاتی۔ تعصب کے جواب میں جو تعصب پیدا ہوا ، اس نے ساری را ہیں مسدود کر دیں ۔ میں نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ (مولانا سید حسین احمد مدنی) سے سنا ہے کہ کلکتہ کی مسجد جو مسجد ناخدا کے نام سے مشہور ہے ، صرف اس ایک مسجد میں تقسیم سے پہلے یہ حال تھا کہ ہر روز تقریباً ایک سو آدمی آکر اسلام قبول کرتے تھے۔ تقسیم سے پہلے کچھ دنوں تک مولانا حسین احمدمدنی مسجد ناخدا میں خطیب تھے، یہی کیفیت پہلے سارے ملک میں تھی ۔ ہر روز لوگ سینکڑوں کی تعداد میں اسلام کے حلقہ میں داخل ہورہے تھے۔ یہ سب کچھ تقسیم کی منافرت کی پالیسی کے نتیجہ میں ختم ہو گیا"۔ ( الجمعیۃ و یکلی،دہلی ، ۲۴ مارچ ۱۹۷۳ ، صفحہ ۳ )
موجودہ مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہر قیمت پر دعوت کے مواقع کو دوبارہ زندہ کریں۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اندیشہ ہے کہ وہ خدا کے قانون کی زد میں آجائیں گے اور پھر کوئی چیز نہ ہوگی جو انھیں خدا کی پکڑ سے بچا سکے ۔