قومی مسئلہ
دسمبر ۱۹۹۰ میں میں امریکہ اور جاپان کے سفر پر تھا۔ تین ہفتہ کے اس سفر کے دوران میری ملاقات کویت کے ایک باشندہ سے ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کویت میں نہایت آرام کی زندگی گزار رہے تھے ۔ ۲ اگست ۱۹۹۰ کو جب عراقی صدر صدام حسین نے دو لاکھ مسلح فوج کویت میں داخل کردی اور اس پر قبضہ کر لیا تو اچانک انھوں نے پایا کہ ان کی جان ، مال ، عزت ، سب کچھ غیر محفوظ ہے۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر کویت سے بھاگے ۔ طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے وہ باہر کے ایک ملک میں پہنچ گئے جہاں انہیں پناہ گزیں کی حیثیت سے قیام کرنا پڑا۔
گفتگو کے دوران مذکورہ کو یتی مسلمان نے کہا کہ آپ لوگ انڈیا میں ہم سے بہت بہتر ہیں۔ آپ ایک بڑے ملک کے شہری ہیں۔ آپ کے ساتھ یہ حادثہ پیش نہیں آسکتا کہ کسی بیرونی ملک کی فوجیں اچانک آپ کے ملک میں گھس آئیں اور آپ کے اوپر زبر دستی قبضہ کر لیں ۔ جب کہ کو یت ایک بہت چھوٹا ملک ہے۔ وہ کسی بھی وقت دوسروں کی دستبرد سے محفوظ نہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ دیکھیے ۔ اسی صدام حسین نے اس سے پہلے ایران پر حملہ کیا اور آٹھ سال (۱۹۸۸- ۱۹۸۰) تک اس سے لڑتا رہا۔ مگر وہ ایران کا کچھ بگاڑ نہ سکا۔ کیوں کہ ایران ایک بڑا ملک تھا۔ اور اب اسی صدام حسین نے صرف ایک دن کے اندر پورے کو یت پر قبضہ کر لیا۔ کیوں کہ کویت ایک چھوٹا ملک ہے۔
مسئلہ کیا ہے
مجھے کو یت کے باشندہ کی یہ بات بہت درست معلوم ہوئی۔ پھر میں نے سوچا کہ جب ایسا ہے تو انڈیا کے سرحدی صوبوں ––––– پنجاب، کشمیر، آسام میں علاحدگی کی تحریکیں کیوں چل رہی ہیں۔ حالانکہ یہ صوبے اگر انڈیا سے الگ ہو جائیں تو وہ کویت سے بھی زیادہ کمزور اور بے سہارا ہوں گے۔ ایسی حالت میں علاحدگی کے پر شور مطالبہ کا کیا حاصل ۔ جن لوگوں کو ایک بڑے ملک کا شہری ہونے کا درجہ حاصل ہے، وہ اپنے کو چھوٹے ملک کا شہری بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔
اس سوال پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آ یا کہ اس نادانی کا اصل سبب وہ چیز ہے جس کو مذہب میں عدمِ قناعت کہا گیا ہے۔ یعنی ملی ہوئی چیز کوکم سمجھنا ، اور جو چیز نہیں ملی اس کو زیادہ خیال کرنا۔
آسام اور پنجاب اور کشمیر والوں کو آج بھی بہت کچھ ملا ہوا ہے۔ مگر وہ اس پر قانع نہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو بعض اعتبار سے ان سے زیادہ حاصل ہے۔ وہ نہ ملے ہوئے پر نظر جمانے کی وجہ سے ملے ہوئے کی قدر نہیں کر پاتے۔ وہ نہ ملے ہوئے کو لینے کی فکر میں اپنے ملے ہوئے کو بھی برباد کر رہے ہیں ۔
شیخ محمد عبد اللہ یہ سوچتے تھے کہ انڈ یا سے الحاق شدہ کشمیر میں وہ صرف ’’چیف منسٹر‘‘بن سکتے۔ ہیں۔ اور اگر کشمیر ایک علاحدہ ملک کی حیثیت حاصل کرلے تو وہ اس کے ’’پرائم منسٹر ‘‘کہے جائیں گے۔ اس تخیل نے ان کے اندر آزاد کشمیر کا نظریہ پیدا کیا۔ یہی نظریہ ہے جس نے دو بارہ زندہ ہوا کشمیرمیں موجودہ خون ریز تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے۔
اسی قسم کے سنہرے خواب ہیں جو کشمیر، پنجاب، آسام، ہر جگہ کے لیڈروں کو علاحدگی کی تحریک پر اکسائے ہوئے ہیں ۔ مگر یہ صرف خام خیالی ہے۔ اگر بالفرض یہ علاقے انڈیا سے الگ ہو جائیں اور وہاں کے لیڈر اپنے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے پرائم منسٹر بن جائیں تو مسئلہ ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ وہ شدید تر صورت اختیار کرلے گا۔ کیوں کہ ان کے مفروضہ آزاد ملک میں بھی پرائم منسٹر صرف ایک ہی شخص بنے گا ۔ بقیہ تمام لوگ بدستور غیر پرائم منسٹربن کر رہنے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں دوبارہ نئی صورت میں مفادات کا ٹکر اؤ شروع ہو جائے گا۔
اس کے بعد یہ ہو گا کہ آج جو ٹکراؤ ’’صوبہ اور مرکز‘‘کے درمیان ہے ، وہ خود صوبہ (آزاد ملک) کے ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان شدید ترشکل میں پیدا ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں جنم لیں گی ۔ ’’آزاد ملک‘‘ترقی کی طرف سفر کرنے کے بجائے آپس کی لڑائیوں اور بے شمار نئے نئے مسائل کے درمیان پھنس کر رہ جائے گا۔ جس کی ایک قریبی مثال آج بھی بنگلا دیش کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاست کو نتیجہ رخی (result-oriented) ہونا چاہیے۔ سیاست کا صحیح ترین اصول یہ ہے کہ جو چیز حاصل ہونے والی نہیں اس میں مشغول ہو کر اپنی قوت کو ضائع نہ کرو ، بلکہ حاصل ہونے والی چیز میں اپنی محنت کو لگاؤ۔ کیوں کہ سیاست در اصل ممکن کا کھیل ہے:
Politics is the art of possible
اس دنیا میں تمام امنگوں کا پورا ہو نا ممکن نہیں۔ یہاں آدمی کو امنگوں سے کم تر حالت پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو کم پر راضی ہو جائے۔ کم پر راضی ہو کر وہ ممکن کو پالیتا ہے۔ اور کم پر راضی نہ ہو کر وہ ممکن کو بھی کھو دیتا ہے۔ اور نا ممکن تو پہلے ہی سے اس کے لیے کھویا ہوا ہے۔
ایک اور مثال
اسی طرح ایک اور سفر میں میری ملاقات بنگلہ دیش کے ایک مسلمان سے ہوئی۔ وہ کر اچی جارہے تھے تاکہ وہاں اپنے لیے کوئی معاشی کام تلاش کریں۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے پاکستان سے لڑکر اپنا ملک الگ بنایا تھا۔ اور اس کو آپ لوگ ’’سونار بنگلہ‘‘کہتے تھے۔ پھر اب پاکستان میں کیوں آپ اپنا مستقبل بنا نا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ سب لیڈروں کے نعرے تھے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہم لوگ آج سے بہت زیادہ بہتر تھے۔
اس معاملے پر غور کیجیے تو زندگی کی ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے۔ آزاد بنگلہ دیش کی تحریک کیوں چلی اور ۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ کیوں ہو ا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ۱۹۴۷ میں جب تقسیم ہوئی اور مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی صورت میں ایک علاحدہ ملک بنا تو اس وقت پنجابی لوگ فوج اور دوسرے سرکاری عہدوں پر چھائے ہوئے تھے۔ یہ صورت حال پاکستان بننے کے بعد بھی برقرار رہی۔ اس سے بنگلہ دیش والوں میں نار اضگی پید ا ہوئی۔ انھوں نے سمجھا کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر پنجابیوں کی غلامی میں آگئے ہیں۔ چنانچہ وہاں دوبارہ آزادی کی نئی تحریک چل پڑی ۔
مگر یہ تحریک محض ایک جذباتی تحریک تھی ۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بنگلہ دیش کے لوگوں کے پچھڑے پن کا سبب ان کا تعلیم میں پچھڑ اپن تھا۔ یہ دوسروں کی غلامی کا مسئلہ نہ تھا بلکہ خود اپنی کمی اور کوتا ہی کا مسئلہ تھا۔ اس کا صحیح حل یہ تھا کہ وہ پاکستان میں شریک رہتے ہوئے اپنی تعلیمی کمی کو دور کرنے کے لیے محنت کرتے ۔ مگر بنگلہ دیش کے سطحی لیڈروں نے ان کی اس بے چینی کا سیاسی استحصال کیا۔ اور اپنی کمزوریوں کا الزام پاکستان پر ڈال کر نفرت کی ایک دھواں دھار تحریک چلادی۔ اس کے نتیجہ میں بنگلہ دیش نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ۔ مگر اس سیاسی آزادی کے بعد جو ملک بنا وہ صرف ایک کمزور اور بد حال ملک تھا۔ عالمی نقشہ میں اس کی کوئی قیمت نہ تھی ۔ جب اصل سبب دور نہ کیا گیا ہو تو انقلاب صرف ایک نئی بربادی کے ہم معنی ثابت ہوتا ہے۔
اس وقت پنجاب ، آسام، اور کشمیر میں علاحدگی پسندی کی جو تحریکیں چل رہی ہیں، ان سب کی مشترک غلطی یہی ہے ۔ ان صوبوں کے لوگوں کو کچھ شکایتیں ہیں ۔ یہ شکایتیں بالفرض درست ہوں ، تب بھی ان کے اسباب کچھ اور ہیں ۔ مگران صوبوں کے لیڈروں نے ساری ذمہ داری‘‘نئی دہلی ’’ پر ڈال کر علاحدگی کی تحریک چلادی۔ اگر بالفرض یہ تحریکیں کامیاب ہو جائیں اور انھیں ان کی مطلوبہ آزادی مل جائے تو یہ ان کے لیے موجودہ صورت حال سے بھی زیادہ برا ہوگا۔ وہ ایک کمزور اور بد حال ملک کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔ وہ صرف نیا بنگلہ دیش بنائیں گے ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اس دنیا میں جب بھی کسی شخص یا گروہ کوکوئی محرومی پیش آتی ہے تو وہ خود اپنی کسی کمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے لڑنے کے بجائے خود اپنی کمی کو دور کرے۔ اگر اس نے اپنی داخلی کمی کو دور کر لیا تو اس کی خارجی کمی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔
اصل حقیقت
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا مپٹیشن کی دنیا ہے ۔ یہاں ہر وقت مقابلہ جاری رہتا ہے۔ اس مقابلے میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور کوئی پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوئی زیادہ پر قابض ہوجاتا ہے اور کسی کو کم پر راضی ہو نا پڑتا ہے۔
مگر اس قسم کی کوئی بھی صورت حال مستقل نہیں ۔ یہاں ہرپچھڑے ہوئے کے لیے موقع ہے کہ وہ از سر نو محنت کر کے آگے بڑھ جائے ۔ اور ہر آگے جانے والے کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ نئے چیلنج کا مقابلہ کرنے میں کمزور ثابت ہو اور دوبارہ پچھلی صف میں پہنچ جائے۔
ایسی حالت میں زندگی کا اصل راز محنت ہے نہ کہ ٹکر اؤ۔ بنگلہ دیش والوں نے تعلیم اور معاشی سرگرمیوں میں محنت کی ہوتی تو ایک روز آتا جب وہ پنجابیوں سے بھی آگے بڑھ جاتے۔ مگر منفی سیاست چلا کر وہ کچھ اور زیادہ برباد ہوگئے ۔ اسی طرح پنجاب اور آسام اور کشمیر کے لوگ اگر تعلیم اور اقتصادیات جیسے تعمیری میدانوں میں محنت کریں تو وہ سارے ملک میں اونچا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر موجودہ منفی تحریک کے ذریعہ وہ صرف اپنے مواقع کو ضائع کر رہے ہیں ۔ وہ اپنے دور تحریک میں بھی برباد ہو رہے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے خیال کے مطابق کامیابی کے مرحلہ میں پہنچ جائیں تو ایک کمزور اور تباہ شدہ ملک کے سوا ان کے حصہ میں کچھ اور آنے والا نہیں۔
“سونار بنگلہ” اس دنیا میں محنت کے ذریعہ بنتا ہے ، وہ سیاسی تحریک چلا کر یا مار دھاڑ کے ہنگامے جاری کر کے نہیں بنتا۔ ہمارے پنجابی اور کشمیری اور آسامی بھائیوں کے لیے بہترین نمونہ وہ ہےجو جاپان کی جدید تاریخ میں ملتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے امریکہ کی “محکومی” پر راضی رہتے ہوئے محنت کے میدان میں عمل کیا۔ امریکہ سے ٹکراؤ کے میدان کو چھوڑ کر وہ اس میدان میں سرگرم ہو ا جہاں ٹکراؤ کا کوئی امکان نہ تھا۔ یہ طریق کار انتہائی مفید ثابت ہوا۔ ۴۵ سال بعد آج جاپان اتنی زیادہ ترقی حاصل کر چکا ہے کہ وہ خود امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔
مگر ہمارے یہ بھائی بدقسمتی سے “بنگلہ دیش” کو اپنے لیے نمونہ بنائے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ بنگلہ دیش کی حالت یہ ہے کہ اس نے خونیں جنگ لڑ کر ۱۹۷۱ میں نام نہاد سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ۔مگر اس کے سوا ہر دوسری چیز کو اس نے کھو دیا۔ اور اس نے جو چیز کھوئی وہ اس سے بہت زیادہ قیمتی تھی جس کو اس نے زبردست قربانی کے بعد حاصل کیا تھا۔
انڈیا کے علاحدگی پسند لیڈروں کا نعرہ یہ ہے کہ “ پہلے سیاسی آزادی حاصل کرو، اس کے بعد اقتصادی آزادی حاصل کرو”۔ اس کے بجائے ان کے لیے صحیح بات یہ تھی کہ وہ کہتے کہ’’پہلے اقتصادی ترقی حاصل کرو، اس کے بعد سیاسی حقوق اپنے آپ حاصل ہو جائیں گے”۔
“پہلے پھل لے لو ، اس کے بعد درخت لگا لینا”ایک بے معنی جملہ ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی بے معنی ہے کہ پہلے سیاسی انقلاب بر پا کر لو، اس کے بعد اقتصادی انقلاب بر پا کرنا۔ یہ قدرت کی اسکیم کا معاملہ ہے، اور قدرت نے اپنی اسکیم میں چیزوں کی جو ترتیب قائم کر دی ہے، اس میں تبدیلی لانا ہمارے لیے ممکن نہیں ۔ جس طرح نباتات کی دنیا میں پہلے درخت بویا جاتا ہے ، اس کے بعد پھل حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی سماج میں پہلے صلاحیت پیدا کی جاتی ہے ، اس کے بعد اس کا نتیجہ سامنے آتا ہے ۔ اس ترتیب کو الٹنا فطرت سے لڑنا ہے ، اور فطرت سے لڑنے والا شخص کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
آخری بات
ملک کے موجودہ حالات میں کچھ لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ۔ وہ صرف تشویشناک ذہن کے ساتھ ملک کے غیر یقینی مستقبل کا انتظار کر رہے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کو پر امید طبقہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات ایک تخلیقی ا بال (creative ferment) یا ایک تحویلی شورش (transitional turmoil) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مگر ان کے پاس بھی کہنے کے لیے کوئی واضح اور مثبت بات نہیں۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلا گر وہ اگر مجہول نا امیدی میں مبتلا ہے تو دوسرا گر وہ مجہول امید میں ۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ حالات لوگوں کی بے شعوری کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ اور لوگوں کو باشعور بنا کر ہی ان حالات کو درست کیا جاسکتا ہے ۔ قوم کو باشعور بنا نا ایک مستقل کام ہے ۔ یہ کام ترقی یافتہ ملکوں (مثلاً امریکہ اور جاپان) میں بہت بڑے پیمانہ پر کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ یہ ممالک موجودہ ترقی کے درجہ تک پہنچ سکیں ۔
مگر ہندستان میں قوم کی شعور کی تعمیر کا کام سرے سے انجام نہیں دیا گیا۔ نہ ۱۹۴۷ سے پہلے اور نہ ۱۹۴۷ کے بعد ۔مجھے پچھلے سو سال کے اندر کوئی ایک بھی ایسی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی جس کوحقیقی معنوں میں تعمیرِ شعور کی مہم کا عنوان دیا جاسکے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری قومی امیدیں نا کام ہوئی ہیں، اور یہی وہ مقام ہے جہاں عمل کر کے ہم اپنی قومی امیدوں کو دوبارہ اپنے حق میں واقعہ بنا سکتے ہیں۔