سامانِآزمائش
ایک طالب علم امتحان ہال میں داخل ہوتا ہے ۔ وہاں اس کے لیے مکان ہے۔ میز اور کرسی ہے۔ خادم ہے۔ روشنی اور پانی ہے۔ اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں ۔ مگر طالب علم ان میں سے کسی چیز کا مالک نہیں۔ امتحان ہال کی تمام چیزیں اس کے لیے سامان امتحان ہیں نہ کہ سامان ملکیت ۔امتحان دینے کی مقررہ مدت تک اس کو ان چیزوں پر تصرف کا اختیار ہے ۔ امتحان کی مقرر مدت ختم ہوتے ہی اس کویہاں سے رخصت کر دیا جاتا ہے ۔
ایسا ہی معاملہ انسان کا پوری دنیا کی نسبت سے ہے۔ موجودہ دنیا کی کوئی چیز انسان کی ملکیت نہیں ۔ یہاں کی تمام چیزیں اس کو سامان امتحان کے طور پر دی گئی ہیں۔ آدمی جس جسم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کے جس نظام سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے ۔ حتی کہ جو چیزیں وہ بظاہر محنت کر کے حاصل کرتا ہے، سب کی سب خدا کی طرف سے ہیں ، اور سب کی سب امتحان کے سامان کے طور پر اس کو دی گئی ہیں ۔ وہ موت کے وقت تک ان کو استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ موت آتے ہی اس کا یہ حق مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔
امتحان ہال میں تو طالب علم داخل ہوتا ہے، اس کا امتحان یہ ہے کہ وہ پرچہ میں دیے ہوئے سوالات کو حل کرتا ہے یا نہیں۔ اگر اس نے ان سوالات کو حل کر دیا تو وہ کامیاب ہے ۔ اور اگر اس نے ان سوالات کو حل نہیں کیا تو ناکام ۔
دنیا کی نسبت سے جو امتحان ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا خالق یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو پاکر ان کے درمیان کیسا عمل کرتے ہیں (یونس: ۱۴) ہمارا خالق ہم کو سامان حیات دے کر اور ان میں ہم کو آزاد چھوڑ کر ہم کو آزمارہا ہے کہ آیا ہم اس کے شکر گزار بندے بنتے ہیں یا ناشکری کا رویہ اختیار کرتے ہیں (النمل: ۴۰)
موت سے پہلے امتحان کا دور ہے ، موت کے بعد جزاء کا دور ۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جو آدمی شکر گزاری کا طریقہ اختیار کرے گا، اس کے لیے موت کے بعد کے دور حیات میں ابدی جنت ہے۔ اور موت سے پہلے کی زندگی میں جو آدمی ناشکری کا طریقہ اختیار کرے گا، اس کے لیے موت کے بعد کے دور حیات میں ابدی جہنم ۔