بزدلی نہیں اخلاق
ایک صاحب نے کہا کہ میں آپ کا الرسالہ پڑھتا ہوں۔ مگر اس کی ایک بات مجھے پسند نہیں۔ آپ مسلمانوں کو ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ تو بزدلی ہے۔ کیا آپ سارے مسلمانوں کو بزدل بنا دینا چاہتے ہیں۔
یہ صاحب ایک چھوٹے دکاندار ہیں۔ وہ عام ضرورت کی چیزیں بیچتے ہیں ۔ ایک روز میں ان کی دکان پر گیا۔ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک لڑکا آیا ۔ اس کے ہاتھ میں دیا سلائی تھی، اس نے دیا سلائی کی ڈبیہ زور سے ان کی طرف پھینکی اور بگڑ کر کہا: اس پر آپ ۶۰ تیلی لکھے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ اس میں صرف ۵۰ تیلیاں ہیں ۔
لڑکے نے گستاخی بھی کی تھی اور جارحیت بھی۔ مگر دکان دار نے اس کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ بس خاموشی کے ساتھ دوسری ڈبیہ نکال کر اس کو دیدی ۔ نرمی کے ساتھ صرف اتنا کہا : کوئی بات نہیں، دوسری لے جاؤ۔
لڑکا جب چلا گیا تو میں نے دکاندار سے پوچھا کہ لڑکے نے اتنی سخت بد تمیزی کی ، مگر آپ کچھ نہیں بولے ۔ دکاندار نے کہا کہ پہلے میں خوب بو لتا تھا، بلکہ گاہکوں سے لڑائی کر لیتا تھا، مگر اس کے بعد کیا ہوا کہ میری دکانداری ختم ہو گئی۔ پھر میں نے ایک بنیا کو دیکھا کہ وہ کیا کرتا ہے ، اس کی دکان خوب چل رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ گاہوں سے کبھی نہیں الجھتا۔ وہ گاہک کی ہر الٹی بات کو نظر انداز کر کے اس سے معاملہ کرتا ہے۔ میں بھی ایساہی کرنے لگا۔ اب خدا کے فضل سے میری دکان چلنے لگی۔ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی چل رہی ہے۔
دکاندار کی بات میں خاموشی کے ساتھ سنتا رہا۔ آخر میں میں نے کہا : بھائی صاحب ، مجھ میں اور آپ میں صرف ایک لفظ کا فرق ہے۔ آپ تجارتِ دنیا کے لیے بزدل بنے ہوئے ہیں، میں تجارت آخرت کے لیے بزدل بن جانا چاہتا ہوں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا معاملہ"بزدلی " نہیں، وہ ایک اخلاقی اصول ہے۔ وہ بے عملی نہیں بلکہ عین عمل ہے۔ وہ ہار ماننا نہیں ہے بلکہ سب سے بڑی جیت کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ وہ کھونا نہیں بلکہ پانا ہے ۔ وہ کسی آدمی کے سامنے جھکنا نہیں ہے بلکہ رب العالمین کے سامنے اپنے آپ کو جھکانا ہے۔
جو لوگ صبر کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ، اس کا سبب صرف ان کی ناسمجھی اور کو تاہ بینی ہے نہ کہ ان کی معاملہ فہمی اور سمجھداری۔