ایک پیغام
کشمیر کے کچھ نوجوانوں نے پوچھاکہ کشمیر کے لیے آپ کا پیغام کیا ہے ۔ میں نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں میری ایک ہی رائے ہے جس کو میں ۱۹۶۷ سے بار بار ظاہر کرتارہا ہوں۔ وہ یہ کہ ان کے مسئلہ کا حل حقیقت پسندی میں ہے نہ کہ جذباتی نعروں اور ٹکراؤ کی سیاست میں ۔
ایک طرف قرآن و حدیث اور دوسری طرف تاریخ کے مطالعہ سے میں نے یہ بات پائی ہے کہ یہ دنیا ان لوگوں کے لیے ہے جو حقائق کو سمجھیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے سنجیدہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ حقائق سے بے پروا ہو کر جذباتی اقدام کر ناصرف اپنی بربادی میں اضافہ کرنا ہے، اس کے سوااور کچھ نہیں۔
موجودہ دنیا میں زندگی کی تعمیر کے لیے جن حقیقتوں کو سمجھنا ہے ، ان میں سے ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ عمل کسی پر جوش اقدام کا نام نہیں۔ عمل در اصل نام ہے مواقع کو جان کر انھیں استعمال کرنے کا۔ آپ ممکن سے آغاز کر کے ناممکن تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے ناممکن سے آغاز کیا تو آپ ممکن کو بھی کھو دیں گے، اور ناممکن تو پہلے ہی سے آپ کے لیے کھویا ہوا تھا۔
دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز جو آدمی کو ملتی ہے ، وہ اہلیت کی بنا پر ملتی ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز مطالبہ یا توڑپھوڑ کے ذریعہ حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ اس دنیا میں جس شخص یا قوم کو کچھ لینا ہے وہ پر امن تعمیری جدوجہد کے ذریعہ اس کی اہلیت اپنے اندر پیدا کرے۔ اس کے بعد یقینی طور پر وہ اپنی مراد کو پالے گا۔ یہاں کسی کے لیے نہ پانا ابدی ہے اور نہ کھونا ابدی۔
اس دنیا میں کوئی کسی سے نہیں چھینتا، ہر ایک خود اپنے آپ کو محروم کرتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی کسی کو دھوکا نہیں دیتا، ہر ایک خود اپنی نادانی سے دھوکا کھاتا ہے۔ یہاں ناکامی یہ ہے کہ آدمی زندگی کے مقابلے میں نا اہل ثابت ہو، اور کامیابی یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اہل ثابت کر کے آگے بڑھ جائے۔
اس دنیا میں صحیح اقدام وہ ہے جس کا ہر دن آدمی کو کچھ اور آگے بڑھاتا ہو۔ جو اقدام آدمی کو پیچھے لے جانے کا سبب بنے ، وہ اقدام ہی نہ تھا۔ وہ خود کشی کی ایک چھلانگ تھی جس کو کم فہمی کی بنا پر اقدام سمجھ لیا گیا ۔( ۲۹ اپریل ۱۹۹۱)