حج اسپرٹ

حج با مقصد زندگی کا ریہرسل ہے۔ چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدائی مشن کے لیے انتہائی با مقصد زندگی گزاری۔ حتی کہ وہ اس بامقصد زندگی کا ایک مثالی نمونہ بن گئے۔ حضرت ابراہیم پر اس بامقصد زندگی کے سلسلہ میں جو مراحل گزرے ، حاجی انھیں مراحل کا علامتی اعادہ کرتا ہے۔ وہ مقرر دنوں میں حضرت ابراہیم کی لمبی تاریخ کو دہرا کر اپنے اندر یہ عزم تازہ کرتا ہے کہ وہ اس معاملے  میں حضرت ابراہیم کو اپنے لیے نمونہ بنائے گا۔ حضرت ابراہیم نے جو کچھ اپنے زمانے  میں اپنے حالات کے اعتبار سےکیا،اسی کووہ  دوبارہ اپنی زندگی میں اپنے حالات کے اعتبار سے ظہور میں لائے گا۔

حج کے تمام مراسم اپنی حقیقت کے اعتبار سے با مقصد زندگی کے مختلف مرحلے ہیں۔ مقصدی زندگی اختیار کرنے کے بعد جو کچھ ایک انسان پر گزرتا ہے ، وہ حضرت ابراہیم پر اپنی کامل صورت میں گزرا۔ ہر زمانے  میں اہل ایمان کو بامقصد زندگی گزارنے کے لیے دوبارہ یہی سب کچھ کرنا ہے۔ سچا حاجی وہی ہے جو اس نیت اور اس حوصلہ کے ساتھ حج کے مراسم ادا کرے ۔

 با مقصد زندگی سب سے پہلے شعوری فیصلہ چاہتی ہے، حاجی حج کی نیت کر کے اور احرام پہن کر یہی شعوری فیصلہ کرتا ہے۔ بامقصد زندگی مالی انفاق کی طالب ہوتی ہے ، حاجی اپنی پاک کمائی سے سفر حج کے اخراجات اٹھا کر اسی مقصدیت کا اظہار کرتا ہے ۔ مقصد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آدمی متحرک ہو۔ حسب ضرورت وہ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر کرے ، حاجی اپنے وطن سے حجاز کا سفر کر کے اسی شرط کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے۔

 با مقصد آدمی ایک مرکزی نقطہ مقررکرتا ہے اور اسی کے گرد اپنی پوری زندگی کو منظم کرتا ہے، حاجی کعبہ کے گردگھوم کر اسی مقصدی صفت کو اختیار کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ بامقصد آدمی کو اپنے مقصد کی راہ میں سرگرم ہونا پڑتا ہے ، حاجی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ کر اسی سرگرمی کو اپنانے کا اعلان کرتا ہے۔ با مقصد آدمی ہر وہ قربانی پیش کرتا ہے جو اس کا مقصد اس سے طلب کرے، حاجی زمانہ ٔحج میں جانور کو قربان کر کے اسی بات کا علامتی عہد کرتا ہے۔ با مقصد آدمی دوسرے ہم خیال لوگوں کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے تاکہ اس کا عمل زیادہ مؤثر اور طاقتور ہو سکے ، حاجی عرفات کے میدان میں تمام لوگوں کے ساتھ جمع ہو کر اسی جذبۂ اتحاد کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ وغیرہ

حج ابتدا ہے ، وہ انتہا نہیں۔ اس کی ابتدا مقاماتِ حج میں ہوتی ہے، اور اس کی انتہا اور تکمیل وہاں سے لوٹنے کے بعد حاجی کی اپنی عملی زندگی میں۔

 یہ ابراہیمی مقصد دعوت وتبلیغ کا مقصد ہے۔ حضرت ابراہیم کا مشن دعوت الی اللہ کا مشن تھا۔ اس کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا۔ حج در اصل حضرت ابراہیم کی اسی سنت کو زندہ  کرنے کا عزم ہے۔ حقیقی حاجی وہی ہے جو حج کے سفر سے یہ عزم اور یہ حوصلہ لے کر اپنے وطن واپس آئے ۔

حضرت ابراہیم نے عراق میں لمبی مدت تک دعوت دی ۔مگر وہاں کے لوگ مشرکانہ تمدن میں اتنازیادہ غرق ہو چکے تھے کہ وہ توحید کے پیغام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔ صدیوں تک مشرکانہ تمدن کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے وہاں کی پوری نسل کا شاکلہ بگڑ گیا تھا۔ اب ضرورت تھی کہ ایک نئی قوم بنائی جائے جو اپنی فطرت پر قائم ہو اور پھر توحید کے پیغام کوقبول کر کے اس کی علم برداری کر سکے۔

 حضرت ابراہیم نے اسی قسم کی ایک نئی نسل بنانے کے لیے اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے بے آب و گیاہ صحرا میں بسا دیا۔ جہاں تمدن سے دور اور فطرت کے ماحول میں پرورش پاکر وہ نسل بنی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ یہی لوگ تھے جو پیغمبر آخر الزماں کے ہاتھ پر ایمان لائے اور ایک طاقت ورٹیم بن کر ساری دنیا میں موحدانہ انقلاب برپا کیا۔

 آج دوبارہ حضرت ابراہیم کی اسی سنت دعوت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو دوبارہ داعیان حق کی ایک ٹیم درکار ہے جو اسلام کے پیغام کو لے کر اٹھے اور اس کو عالمی سطح پر پھیلا دے۔ اب دوبارہ وہ وقت آگیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے بیٹوں کو خدا کے دین کی خدمت کے لیے وقف کریں جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے زمانے  میں اپنے بیٹے کو خدا کے دین کی خاطر وقف کیا۔ اسی قربانی سے پہلے بھی خدا کے دین کی تاریخ بنی تھی، آج بھی اسی قسم کی قربانی سے خدا کے دین کی تاریخ دوبارہ ظہور میں آئے گی ۔

 آج ساری دنیا میں خدا کے دین کی اشاعت کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ مختلف اسباب کے تحت لوگوں میں یہ رجحان پیدا ہوا ہے کہ وہ دین حق کو جانیں۔ اب ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اس مقصد کے لیے اٹھیں۔ وہ ہر ملک میں جائیں اور وہاں کے باشندوں کو خدا کے دین کا پیغام پہنچائیں ۔مگر یہ دعوتی مواقع عملاً استعمال نہیں ہورہے ہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ کارکن نہیں جو دعوت کے اس کام کو موثر طور پر انجام دے سکیں ۔

 یہ صورت حال بتاتی ہے کہ آج سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔ آج کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ بڑے پیمانہ پر ایک "تبلیغی درس گاہ "قائم کی جائے ۔ اس میں مسلم نوجوانوں کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ مذکورہ کام کے لیے تیار کیا جائے ۔ اس درس گاہ میں وہ عالمی زبانوں میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ ملکوں اور قوموں کی تاریخ پڑھیں اور تقابلی طور پر مذاہب کا مطالعہ کریں۔ اس طرح ضروری علوم میں واقفیت پیدا کر کے وہ سارے عالم میں اسی طرح پھیل جائیں جس طرح دور اول کے مسلمان خشکی اور تری میں پھیل گئے تھے۔

 اس طرح کی ایک تبلیغی درس گاہ میں اپنے ذہین بیٹوں کو داخل کر نا بلا شبہ والدین کے لیے ایک قربانی ہے۔ مگر آج ابراہیمی سنت کو زندہ کرنے کے لیے اسی قربانی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی ایک تبلیغی درس گاہ اگر قائم ہو تو گویا وہ دور جدید کی ایک وادیٔ غیر ذی زرع ہوگی جہاں ابراہیمی سنت پر عمل کا دعوی کرنے والے حاجی اپنی اولاد کو لے جاکر بسائیں گے (ابراہیم:۳۷)

آج کے حاجی کو یہ ضرورت نہیں کہ وہ اپنی اولاد کو کسی ریگستان میں لے جا کر بسائے۔آج اس کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ذاتی خدمت  کے دائرہ سے نکال کر دینی خدمت کے دائرہ میں بھیجے۔وہ اپنے بیٹے کو اسلامیات کی تعلیم دے۔اسی کے ساتھ وہ اس کو وقت کی زبان اور علوم سے واقف کرائے۔اور پھر اس کو موقع دے کہ وہ اپنے ماحول سے نکل کر اقوام عالم کے درمیان پہنچے اور ان کو طاقتور انداز میں خدا کے دین کا مخاطب بنائے۔

آج اسلامی دعوت کو دوبارہ تازہ دم کارکنوں کی ایک ٹیم درکار ہے۔یہ ٹیم دوبارہ ابراہیمی قربانی ہی کے ذریعہ بن سکتی ہے۔حج کے مناسک اسلام کی اسی ضرورت کا عالمی اعلان ہیں۔کیا کوئی ہے جو حج کی اس پکار کو سنے ،کیا کوئی ہے جو اس پکارکی طرف دوڑے،اور دوبارہ ابراہیمی سنت کو زندہ کرکے اسلام کی نئی تاریخ بنائے ۔

 یہی حج اسپرٹ ہے ، اور اسی حج اسپرٹ کو زندہ کرنا حاجیوں کا سب سے بڑا کام ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom