رد عمل کا نتیجہ
مسٹرجے ڈی بر لا (۱۹۸۳ – ۱۸۹۴) ہندستان کے عظیم ترین صنعت کار ہونے کے علاوہ آزادی کی جدوجہد میں مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
مسٹر برلا کے اندر قومی آزادی کے خیالات کس طرح پیدا ہوئے ، اس سلسلے میں وہ خود لکھتے ہیں کہ"جب میری عمر سولہ سال تھی، میں نے کلکتہ میں دلال (broker) کی حیثیت سے اپنا ایک آزاد کا روبار شروع کیا ۔ اس طرح میرا ربط انگریزوں سے بڑھا جو کہ اس وقت میرے گاہک یا میرے افسر تھے ۔ ان سے ربط کے دوران میں نے ان کے اعلی تجارتی طریقے دیکھے ۔ ان کی تنظیمی صلاحیت اور ان کی دوسری بہت سی خصوصیات کا تجربہ ہوا۔ مگر ان کا نسلی غرور میرے لیے نا قابل برداشت تھا۔ مجھے یہ اجازت نہیں تھی کہ میں ان کے آفس میں جانے کے لیے لفٹ استعمال کروں۔ نہ مجھے اجازت تھی کہ انتظار کے وقت ان کی بنچ پر بیٹھوں ۔ یہ تو ہین (insult) میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ اس کے نتیجہ میں میرے اندر سیاست سے دلچسپی پیدا ہوئی جو ۱۹۱۲ سے لے کر آخر تک پوری طرح قائم رہی" ۔
ہندستان ٹائمس (۱۲ جون ۱۹۸۳) کے اڈیٹر نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ان کی قوم پرستی کا آغاز تھا :
This was the beginning of his nationalism.
مسٹر برلا کا نیشنلزم نفرت انگریز کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔ اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلم لیڈروں کا اسلام ازم بھی کسی نہ کسی دشمن یا حریف کے خلاف نفرت کے تحت پیدا ہوا۔ دونوں اگرچہ الگ الگ الفاظ بولتے تھے ۔ مگر دونوں ہی رد عمل کی پیداوار تھے ۔ مثبت کیس نہ ایک کا تھا اور نہ دوسرے کا ۔
ایک ہے ایجابی محرک کے تحت اٹھنا۔ دوسرا ہے منفی محرک کے تحت اٹھنا۔ ایجابی محرک کے تحت اٹھنے کا نام عمل ہے اور منفی محرک کے تحت اٹھنے کا نام ردعمل۔ کوئی حقیقی نتیجہ ہمیشہ حقیقی عمل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ ردعمل کوئی حقیقی عمل ہی نہیں۔ اس لیے اس کا کوئی حقیقی نتیجہ بھی ظاہر ہونےوالا نہیں۔