مومن کا طریقہ
صحیح البخاری کی" کتاب التفسیر "میں قر آن سے متعلق بہت سی روایتیں جمع کی گئی ہیں ۔سورہ الحجرات کی تفسیر کے تحت ایک واقعہ دو واسطوں سے نقل کیا گیا ہے۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ قریب تھا کہ دو اصحاب خیر ہلاک ہو جائیں۔ یعنی ابوبکر اورعمر۔ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آوازیں بلند کیں۔ یہ اس وقت ہوا جب کہ بنوتمیم کا وفد مدینہ آیا۔ ابوبکر نے کہا کہ القعقاع بن معبد کو ان کا امیر بنائیے ۔ عمرنے کہا کہ الاقرع بن حابس کو ان کا امیر بنائیے۔ پھر ابو بکر نے عمر سے کہا کہ تم نے صرف میری مخالفت کے لیے ایسا کہا ہے ۔ عمر نے جواب دیا کہ میرا مقصد تمہاری مخالفت نہیں ۔ پھر دونوں بحث کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ ان کی آواز یں اونچی ہوگئیں۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اے ایمان والو ، تم اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو۔ اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اوپر مت کرو ..... ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (الحجرا ت: ۱-۲)
ابن الزبیر کہتے ہیں کہ اس کے بعد عمر کا یہ حال ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح بولتے کہ پوری طرح سنائی نہ دیتا اور رسول اللہ دوبارہ پوچھتے کہ تم نے کیا کہا ۔فَمَا كَانَ عُمَرُ يَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ (بخاری،حدیث نمبر ۴۵٦۴)
یہی مومن کا طریقہ ہے ۔ مومن بے خبری میں خدا ورسول کی آواز پر اپنی آواز بلند کر سکتا ہے۔ مگرجیسے ہی اس کو بتایا جائے وہ فوراً اپنی آواز پست کر لیتا ہے ۔ وہ اپنی آواز کو خداا ور سول کی آواز کےمقابلے میں نیچا کر لیتا ہے۔
یہ صرف زمانۂ رسول کی بات نہیں ۔ آج بھی اہل ایمان سے یہی مطلوب ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے براہ راست رسول خدا کے ذریعہ اس کو متنبہ کیا جاتا تھا ۔ آج قرآن و حدیث کے حوالے سے کوئی دوسرا متنبہ کرنے والا اس کو متنبہ کرے گا۔ آج بھی جب کسی کے سامنے خدااور سول کا حکم بیان کیا جائے تو اس کو اپنی آواز اسی طرح پست کر لینا چاہیے جس طرح دور اول کے اہل ایمان نے اس کے مقابلے میں اپنی آواز کو پست کر لیا تھا ۔