ایک سفر
جغرافی اعتبار سے کر ۂ ارض کو دو نصف حصہ (Hemisphere) میں تقسیم کیا گیاہے۔ ایک مشرقی نصف حصہ (Eastern Hemisphere) اور دوسرا مغربی نصف حصہ (Western Hemisphere) پہلے نصف میں یورپ، ایشیا، افریقہ ، آسٹریلیا شامل ہیں۔ دوسرے نصف میں امریکہ اور بحر الکاہل(Pacific ocean) واقع ہیں۔
پچھلے ۲۰ سال کے دوران مجھے بار بار بیرونی دنیا کے سفر پیش آئے ہیں۔ مگر میرے اب تک کے تمام سفر مشرقی نصف کرہ میں ہوئے ہیں۔ مغربی نصف کرہ میں سفر کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ موجودہ سفر اسی مغربی نصف کرۂ ارض میں ہوا۔ یعنی دہلی سے ٹوکیو، اور ٹوکیو سے لاس انجلیز ۔ اور پھر اسی راستہ سے دہلی کے لیے واپسی۔ اس طرح اب میرے اسفار میں پورا کرۂ ارض طے ہو گیا۔ یہ انسان کے ساتھ اللہ تعالٰی کا کیسا عجیب معاملہ ہے کہ وہ فضا کی بلندیوں میں اڑتے ہوئے پورے کرہ ٔارض کا احاطہ کر لیتا ہے، بغیر اس کے کہ کوئی پہاڑ یا کوئی سمندر اس کی راہ میں حائل ہوا ہو۔
امریکی حکومت ویزا دینے کے بارے میں بہت فراخ دل ہے۔ میرے سفر کے سلسلے میں ایک مہینہ کے ویزا کی درخواست دی گئی تھی۔ مگر نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ نے بطور خود ایک سال کا ملٹی پل ویزا (Multiple visa) دے دیا۔ ۱۹۸۹ میں نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ نے 58500 ویزا جاری کیے تھے۔
مگر اسی کے ساتھ بے اصولی کرنے والوں کے لیے امریکی انتظامیہ بے حد سخت بھی ہے ۔ جو لوگ ویزاکے لیے غلط قسم کے کاغذات پیش کریں۔ ان پر ساری عمر کے لیے امریکہ میں داخلہ بند کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ گئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے غیر قانونی طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح کے واقعات کی بنا پر یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ جو شخص ویزا کی درخواست میں غلط اندراج کرے یا فرضی ڈاکومنٹ پیش کرے ، اس کو ساری زندگی کبھی امریکہ میں داخلہ کا ویزا نہ دیا جائے( ہندستان ٹائمس ۱۳ جون ۱۹۹۰ )
۱۸ اور ۱۹ نومبر ۱۹۹۰ کی درمیانی رات کو ۱۲ بجے گھر سے ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ میں دو جگہ ٹرکوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ معلوم ہوا کہ آجکل ڈیزل کی سپلائی کم کر دی گئی ہے۔ نیز رات کو صرف چند پٹرول پمپ کھلے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ لمبی لائن ہے۔ ہر لائن میں سو کے قریب ٹرک کھڑے ہوئے نظر آئے ۔ میں نے سوچا کہ یہاں ٹرک ہے۔ انجن لگی ہوئی گاڑی ہے ۔ ڈرائیور بھی اس کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ غرض ہر چیز موجود ہے ، صرف ایک چیز‘‘ ایندھن ’’نہیں ہے ، اس کی وجہ سے تمام گاڑیاں کھڑی ہو گئیں۔ ایک’’ ٹرک” ایندھن کے بغیر نہیں چل سکتا۔ پھر اتنی بڑی کائنات کس طرح ایند ھن کے بغیر سو بلین سال سے چل رہی ہے۔ آدمی اگر اس پر سوچے تو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔
دہلی سے جاپان ائیر لائننر کی فلائٹ ۴۹۲ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ راستہ میں پڑھنے کے لیے ایر کمپنی کا میگزین و نڈس (Winds) موجود تھا۔ میں فلائٹ میگزین بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مگر اس میں کوئی خاص چیز میرے پڑھنے کے لیے نہ تھی۔ تین سو صفحہ کا یہ رنگین چھپا ہوا میگزین زیادہ تر اشتہارات سے بھرا ہوا تھا۔ چند معمولی قسم کے مضمون تھے۔ مثلاً ایک مضمون جاپان کی رسلنگ پر تھا۔ ایک مضمون کا عنوان تھا:
A day in the life of a salary man.
جاپان مکمل طور پر ایک تجارتی ملک ہے۔ دنیا کو دینے کے لیے اس کے پاس بہترین صنعتی چیزیں ہیں ۔ مگر علمی اور فکری ذوق رکھنے والوں کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ۔
اشتہارات کے لیے بڑی پرکشش زبان استعمال کی گئی تھی۔ مثلاً کا ربنانے والی ایک کمپنی کا اشتہار تھا۔ کار کی ایک خوب صورت تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس کے نیچےلکھا ہوا تھا –––––– تہذیب کے راستہ پر (on the road to civilization) ایک اشتہار میں ٹیلیویژن بنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ تعارفی الفاظ لکھنے کے بعد یہ جملہ درج تھا کہ ٹکنالوجی انسانیت کو فائدہ پہنچانےکے لیے :
Technology for the benefit of mankind
میں نے سوچا کہ ایک مصلح بھی وہی زبان بولتا ہے جو ایک تاجر بو لتا ہے ۔ مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ تاجر کا اصل مقصد تجارت ہے مگروہ شخصی الفاظ نہ بول کر عمومی انسانی الفاظ بولتا ہے۔ مگر مصلح جو لفظ بولتا ہے وہی اس کا اصل مقصد بھی ہوتا ہے۔گویا تاجر کی شخصیت میں ثنویت ہوتی ہے اور مصلح کی شخصیت میں وحدت۔
قدیم زمانے میں دو قسم کی سواریاں رائج تھیں۔ ایک برّی اور دوسری بحری۔ موجودہ زمانے میں تیسری سواری وجود میں آئی ہے جو باعتبار نوعیت ابتدائی دونوں قسم کی سواریوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ہوائی سواری ہے۔ آج ہوائی سواری اس سے بھی زیادہ عام ہے جتناقدیم زمانے میں برّی یا بحری سواری عام تھی ۔ قدیم سواریوں میں تکمیل سفر کے بعد آدمی ‘‘اندر سے باہر ’’آتا تھا۔ جدید سواری میں وہ ‘‘اوپر سے نیچے’’اترتا ہے۔
قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ اولادِ آدم ایک دوسرے کی دشمن ہوگی۔ یہ دشمنی (عداوت) ایک اخلاقی برائی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی دشمنی (یا کا مپٹیشن) دنیا کی تمام ترقیوں کا واحد سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوئی۔ ابتدائی قسم کا ہوائی جہاز سب سے پہلے دو شخصوں نے ۱۷ دسمبر ۱۹۰۳ کو اڑایا تھا۔
مگر اس فن کی ترقی صرف اس وقت شروع ہوئی جب کہ فرانس اور جرمنی نے اس میں جنگی افادیت (war potential) کو محسوس کیا۔ ان دونوں ملکوں نے اس “فلائنگ مشین”کو ترقی دینا شروع کیا۔ تاکہ وہ بوقت جنگ اس کو استعمال کر سکیں ۔ اگست ۱۹۱۴ میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو فرانس نے تقریباً دو ہزار ہوائی جہاز تیار کر لیے تھے اور جرمنی کے پاس ایک ہزار جنگی جہاز تھے۔ ہوائی جہاز کی صنعت نے ابتداء ً جنگ کی برکت سے ترقی کی ۔ 1919 میں جب پہلی باقاعدہ کمرشیل فلائٹ کا آغاز ہوا تو وہ بھی زیادہ تر استعماری عزائم کے تحت تھا ––––– جنگ پسندوں نے ابتداءً ہوائی جہاز کو ترقی دی، اس کے بعد امن پسندوں کو بھی اس کا ایک حصہ مل گیا۔
رابرٹ رنسی (Robert Runcie) ۱۹۲۱ میں پیدا ہوئے۔ وہ کیتھولک چرچ میں آرک بشپ آف کینٹر بری کے منصب پر ہیں۔ سفر کی بابت انھوں نے ایک دلچسپ بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ قرون وسطی میں لوگ مذہب کے لیے سفر کرتے تھے۔ جب کہ آج وہ اس لیے سفر کرتے ہیں کہ سفران کا مذہب ہے :
In the middle ages people were tourists because of their religion, whereas now they are tourists because tourism is their religion.
ہماری پہلی منزل بینکاک تھی جو تھائی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں ائیر پورٹ پر تقریباً ایک گھنٹہ گزرا۔ ایر پورٹ بہت صاف ستھرا اور منظم تھا ۔ ٹائلیٹ سے لے کر باہر کے مقامات تک کہیں کوئی تنکا یا دھبہ نظر نہیں آیا ۔
طالب علمی کے زمانے میں مجھے ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا، مجھے ایک ٹکٹ ملا جس پر سیام لکھا ہوا تھا۔ یہ غالباً ۱۹۳۹ کی بات ہے۔ اس وقت جو ملک ‘‘سیام’’ کہا جاتا تھا، اس کا موجودہ نام تھائی لینڈ ہے۔ پچاس برس پہلے یہ ٹکٹ صرف کاغذی ٹکڑے کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج وہ ٹکٹ اگر موجود ہو تو وہ نہایت قیمتی شمار ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچاس برس پہلے وہ صرف ڈاک کا ایک ٹکٹ تھا، مگر آج وہ تاریخ کی ایک دستاویز بن چکا ہے۔
تھائی لینڈ کی راجدھانی بینکاک ہے۔ بینکاک کی آبادی پچاس لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہی شہر تھائی لینڈ کی تمام سیاسی اور تمدنی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ چنانچہ تھائی لینڈ کے تمام روزنامے بینکاک سے نکلتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے بیشتر ہفت روزہ اور ماہنامہ پرچے بھی۔ یہ پرچے تھائی ، انگلش اور چینی زبانوں میں ہوتے میں ۔
جہاز بینکاک سے ٹوکیو کے لیے روانہ ہوا تو راستہ میں پڑھنے کے لیے تھائی لینڈ کا انگریزی اخبار نیشن (The Nation) تھا۔ اس کے شمارہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۰ کا مطالعہ کیا۔ ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ برما کی فوجی حکومت نے مخالف بر می طلبہ کی دارو گیر کی تو ۲۰۰۰ طلبہ وہاں سے بھاگ کر تھائی لینڈ آ گئے ان میں سے تقریباً ۸۰۰ طلبہ اقوام متحدہ کے ادارہ مہاجرین:(UNHCR)
United Nations High Commissioner for Refugees
کے تحت رجسٹرڈ ہیں ، ان کو ادارہ کی طرف سے پناہ گزیں کے طور پر ماہانہ الا ونس (3,000Bt ) ملتا ہے ۔ مگر تھائی لینڈ کی حکومت ان برمی طلبہ کے خلاف ہوگئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بار بار کی تنبیہ کے با وجود یہ لوگ پر امن قیام پر راضی نہیں۔ وہ تھائی لینڈ کو بیس بنا کر برمی حکومت کے خلاف سرگرمیوں (anti-Rangoon political activity) میں مصروف ہیں۔ تھائی لینڈ میں مقیم برمی طلبہ دو جہازوں کو ہائی جیک کر چکے ہیں ایک اکتوبر ۱۹۹۰ میں دوسرا نومبر ۱۹۹۰ میں ۔ انھوں نے کہا :
They had made the move to publicize the Burmese people's struggle to democracy.
بر می طلبہ کی تنظیم (All Burma Students Democratic Front) کے لیڈر نے کہا کہ ہماری تنظیم کا کوئی تعلق ہائی جیکنگ کے اس قابل مذمت واقعہ سے نہیں ہے۔ وہ ہمارے کچھ برے افراد (few bad individuals) نے کیا تھا۔ اسی قسم کے جواب ہندستان میں مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر بھی دیتے ہیں۔ مگر یہ جواب ان کے لیے عذر نہیں ۔ کیوں کہ “برے افراد”کا ہاتھ پکڑنے کی ذمہ داری سب سے پہلے ان کی قوم پر آتی ہے ۔ جب کوئی قوم اپنے برے افراد کے ہاتھ نہ پکڑے تو خدائی قانون کے مطابق اُن افراد کی برائی کی قیمت پوری قوم کو بھگتنی پڑے گی۔
ایک امریکی جرنلسٹ ملے۔ ان سے خلیج کے بحر ان کی بابت گفتگو ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ سفارتی ذرائع سے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش مشکل ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر جنگ ہو تو اس میں بہت سی جانیں ضائع ہوں گی اور اس سے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچے گا :
A diplomatic solution may be messy, but fighting would cost too many lives and damage America's interests.
اس جواب سے امریکی ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ خلیج کا مسئلہ ۲ اگست ۱۹۹۰ کو پیدا ہوا۔ امریکی فوجیں اس کے فور اً بعد خلیج میں پہنچ گئیں ۔ وہ جدید ترین سامان جنگ کے ساتھ عراق اور کویت کی سرحدوں پر موجود ہیں۔ مگر اب تک امریکہ نے کوئی جنگی اقدام نہیں کیا ۔ کیوں کہ ان کا مذہب “انٹرسٹ”ہے، اور انٹرسٹ کے نقطہ ٔنظر سے جنگی کارروائی کا فائدہ مشتبہ نظر آتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی مسلم ملک اتنی بڑی طاقت کے ساتھ وہاں موجود ہوتا تو اب تک جنگ کا آغاز اور اختتام دونوں ہو چکا ہوتا۔ خواہ اس کے نتیجہ میں شہیدوں کی لاش کے سوا اور کوئی چیز مسلم دنیا کے حصہ میں نہ آئے ۔ (۱۹ نومبر ۱۹۹۰)
ایک اور امریکی جرنلسٹ سے گفتگو ہوئی۔ وہ ہندستان کے سیاسی حالات سے واقف تھا۔ اس نے کہا کہ آپ کے ملک میں منڈل کمیشن اور رام جنم بھومی کے مسائل پیش آئے۔ آپ کے سابق وزیر اعظم مسٹر وی پی سنگھ لوگوں کو مطمئن نہ کر سکے ۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں انھیں عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا جس میں انھیں ۳۴۶ کے مقابلہ میں صرف ۱۴۲ ووٹ ملے۔ انھوں نے ۷ نومبر کو اپنا استعفا صدر کے پاس بھیج دیا۔ امریکہ کے لوگوں میں بھی صدر بش کے خلاف ناراضگی (resentment)
ہے۔ مگر ہمارے صدر جارج بش خوش قسمت ہیں کہ وہ وزیر اعظم نہیں۔ اگر وہ وزیر اعظم ہوتے تو یقیناً آج انہیں بھی عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑتا :
Mr Bush is lucky that he is not a Prime Minister -he would surely have been facing a non-confidence motion.
اس سے ہندستان اور امریکہ کے نظام حکومت کے فرق کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ہندستان میں وزیر اعظم اور صدر حکومت کا عہدہ الگ الگ ہے۔ امریکہ میں یہ دونوں عہدے ایک شخص کی ذات میں جمع ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور انسان ہوتا ہے۔
۱۹ نومبر کو دوپہر سے کچھ پہلے ٹو کیو پہنچا۔ یہاں جہاز بدلنا تھا ، اس لیے چند گھنٹے ٹوکیو ائیر پورٹ پر گزرے۔ یہاں میں نے ایئر پورٹ کے ایک شخص سے “ٹوائلٹ”کے بارے میں پوچھا۔ وہ غالباً انگریزی نہیں جانتا تھا ، وہ مجھے بتائے بغیر آگے چلا گیا۔ اتنے میں ایک صاحب میرے قریب آئے ۔ انھوں نے اردو میں بولتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو ٹوائلٹ جانا ہے ، آئیے میں آپ کو لے چلتا ہوں۔ ہم ایک سیڑھی سے نیچے اتر ے تو وہاں نہایت صاف ستھرا ٹوائلٹ موجود تھا۔
میں نے فراغت کے بعد وضو کیا۔ باہر نکلا تو مذکورہ صاحب دوبارہ ملے۔ انھوں نے بتایا کہ میرا نام محمد راشد ہے۔ میں دہلی میں رہتا ہوں اور اکسپورٹ کا کام کرتا ہوں۔ کئی بار جاپان آچکا ہوں۔ ٹوکیومیں ایک اردو داں کو پاکر خوشی ہوئی۔ میں نے کہا کہ مجھے نماز پڑھنا ہے ۔ یہاں قبلہ کی سمت معلوم کرنا بے حد مشکل ہے ۔ اندازہ کر کے ایک طرف پڑھ لیتا ہوں ۔ انھوں نے فوراً اپنے بیگ سے ایک‘‘قبلہ نما ’’اور ایک کتا بچہ نکالا۔ اور اندازہ کر کے بتایا کہ یہ قبلہ کا رخ ہے ۔ چنانچہ میں نے اس کے مطابق ایئر پورٹ پر نماز ادا کی۔
میں نے سوچا کہ یہ بھی کیسی عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کے لیے ایک مرکزی رخ مقرر کیا اور اسی کے ساتھ دنیا میں ایسے ذرائع پیدا کر دیے کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں اور کسی بھی مقام پر اس مرکز ی رخ کو بالکل ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جاسکے ۔ اتنے اعلیٰ اجتماعی انتظام کے بعد بھی اگر مسلمان متحدنہ ہوں تو سادہ طور پر محض ایک کو تا ہی نہیں ہے بلکہ یہ خدا وند عالم کی ناقدری ہے۔ ٹو کیو ایر پورٹ پر اور جاپانی جہاز میں بہت سے تجربات ہوئے جن کا ذکر میں سفر نامہ کے آخر میں کروں گا۔
ٹوکیو سے لاس اینجلز کے لیے جاپان ایر لائنر کی فلائٹ نمبر ۶۲ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ یہ دس گھنٹہ کی مسلسل پرواز تھی جو پوری کی پوری بحر الکاہل کے اوپر طے ہوئی۔ کرۂ ارض کا تقریباً ۷۱ فی صد حصہ سمندروں سے گھرا ہوا ہے۔ ان میں سب سے بڑا سمندر بحر الکاہل (Pacific Ocean) ہے۔ متصل سمندروں کو چھوڑتے ہوئے صرف بحر الکاہل تمام سمندروں کا ۴۵ فیصد حصہ ہے۔ اس کی اوسط گہرائی ۱۲۹۲۵ فٹ ہے۔ ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک اس کا فاصلہ تقریباً گیارہ ہزار میل ہے۔
اس عظیم سمندر کے مقابلے میں تمام انسانوں کی مجموعی تعداد ایک چیونٹی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی ۔ مگر یہی انسان اس کے اوپر فاتحانہ پرواز کرتے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتا ہے۔ انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کا یہ کیسا عجیب احسان ہے۔ میں نے نیچے سمندر کی لہروں کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ لہریں کہہ رہی ہوں کہ اے انسان ، ان احسانات کو سوچ کر تیرے اندر شکر خداوندی کا سیلاب امنڈ پڑنا چاہیے ۔ مگر دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ہو جس نے سمندر کی ان بیتاب لہروں میں اس کے ربانی پیغام کو سنا ہو۔
میں ہمیشہ صرف ایک ہینڈ بیگ کے ساتھ سفر کرتا ہوں ۔ مگر اس بار میرے ساتھ کتابوں کے دوبڑے بنڈل تھے جس کی فرمائش امریکہ کی ایک تنظیم کی طرف سے کی گئی تھی۔ ۱۹ نومبر کی شام کو میں لاس اینجلز کے ہوائی اڈہ پر اتر اتو سب سے پہلے مجھے ان دونوں بنڈلوں کو حاصل کر نا تھا۔ ایک جگہ ہوائی اڈہ کی مخصوں گاڑیاں کھڑی تھیں جن پر سامان رکھ کر لوگ باہر لے جاتے ہیں۔ میں نے ایک گاڑی لینا چاہا تو وہ ایک اڈ سے چپکی ہوئی نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ اس کا کرایہ ایک ڈالر ادا کرنا ہے۔ میں نے ایک مخصوص مشین کے اندر ایک ڈالر کا نوٹ ڈالا۔ اس کے بعد گاڑی اپنے آپ چھوٹ کر باہر آگئی۔ جس دنیا میں اس طرح فی الفورنتا ئج نکلتے ہوں وہاں موت کے بعد نکلنے والے نتائج پر یقین کرنا کتنا مشکل کام ہے۔
کتابوں کا بنڈل لے کر ائیر پورٹ کے بیرونی گیٹ پر آیا تو وہاں جناب ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی موجود تھے ۔ وہ اسلامک سوسائٹی آف آرنج کا ونٹی کے ڈائرکٹر ہیں اور بڑی عجیب خوبیوں کے آدمی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اس قسم کے ادارے کے لیے آئیڈیل ڈائرکٹر ہیں۔ ان کے ساتھ بذریعہ روڈ گارڈن گر وو پہنچا جہاں مجھے قیام کر ناتھا۔
ایک شخص جو لاس اینجلز کے شاندار ہوائی اڈہ پر اتر ے اور اس کے بعد پر رونق سڑکوں پر سفر کر تا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہو، وہ مشکل سے یہ سوچ سکتا ہے کہ اس خوب صورت دنیا میں کچھ سیاہ دھبے بھی ہیں۔ مگر واقعہ یہی ہے۔
ایک رپورٹ( ٹائم ۱۸ جون ۱۹۹۰) کے مطابق ، لاس اینجلز میں ماں باپ سے باغی یا بچھڑے ہوئے لڑکے بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ان کے ۵۰۰ سے زیادہ گینگ ہیں جن سے تقریباً ۸۰ ہزار لڑ کے وابستہ ہیں۔ ان لوگوں کے پاس پستول اور بندوق جیسے ہتھیار ہوتے ہیں، وہ قتل اور چوری اور منشیات جیسے جرائم میں مبتلا رہتے ہیں۔
ٹائم میگزین کے رپورٹر نے ایک پندرہ سالہ لڑکے سے پوچھا کہ تم نے فلاں آدمی کو کیوں قتل کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ایک دشمن تھا۔ وہ دشمن کیوں تھا ، لڑکا اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس نے کہا کہ مجھے اس قسم کے فعل پر کوئی ندامت نہیں۔ وقتی طور پر کچھ احساس ابھرتا ہے ، اس کو ختم کرنے کے لیے میں قتل سے پہلے شراب پی لیتا ہوں (صفحہ ۲۰)
ٹائم نے اپنی تین صفحہ کی با تصویر رپورٹ ان الفاظ پر ختم کی ہے کہ لاس اینجلز کے اندرون شہر کے یہ نوجوان ، زمین کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ سماج کے بیچ میں رہتے ہیں۔ وہ مصیبت زدگی اور محرومی کا جواب قدیم قبائل کی بھونڈی نقل کی طرف واپسی کے ذریعہ دے رہے ہیں :
...while inner-city youth of Los Angles, at the center of the most advanced society of earth, respond to adversity and deprivation by regressing to a primitive parody of tribes (p. 22).
امریکہ کے لیے میرا موجودہ سفر ایسے وقت میں ہوا جب کہ امریکی فوجیں اگست ۱۹۹۰ سے خلیج میں عراق کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں۔ قدرتی طور پر آج کل یہاں کے اخبارات میں سب سے زیادہ اسی کا چرچا ہوتا ہے۔ ایک اخبار میں اس موضوع پر مفصل مضمون تھا۔ اس کے چند حصے یہ ہیں :
صدام حسین ایک غیر فوجی آدمی ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ امریکہ خلیج سے نو ہزار میل کی دوری پر ہے۔ اس کی فوجوں کو یہاں پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔ وہ امریکہ کی مدد پہنچنے سے پہلے کویت اور سعودی عرب دونوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوں گے۔ مگر عراق کے اقدام کے بعد امریکہ نے انتہائی سرعت کے ساتھ ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو خلیج میں پہنچا کر تمام دنیا کو حیران کر دیا۔ امریکہ نےنہ صرف عراق کو گھیر لیا ہے بلکہ اس کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے ہدف مقرر کر لیے ہیں۔ امریکہ کا بمبار ۵۲ وہ فوجی طیارہ ہے جو چالیس ٹن وزنی بم اٹھا سکتا ہے۔ ایسے ۳۰ طیارے عراق کی تمام اہم تنصیبات کو چند گھنٹوں کے اندر تباہ کر سکتے ہیں ۔ یہ ویت نام نہیں جہاں غیر موافق جغرافیہ کی وجہ سے امریکہ کو ہدف نہیں ملتا تھا۔ یہ تو صحرا ہے جہاں ہدف خود طیارے کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔
صدام حسین کو معلوم ہو چکا ہے کہ امریکہ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ان کے طیاروں اور میزائلوں کو فضا میں ابھرنے سے پہلے ہی تباہ کر سکتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے امریکہ کے “آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ” کا مقابلہ’’ آپریشن ہیومن شیلڈ”سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ فیصلہ صرف صدام حسین کی انتہائی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔( ٹائم میگزین ۳۱ دسمبر ۱۹۹۰ کے بیان کے مطابق ، یکم فروری ۱۹۹۱ تک امریکی فوجیں چار لاکھ تیس ہزار کی تعداد میں خلیج میں پہنچ چکی ہوں گی )
امریکہ کو دریافت کرنے والے کی حیثیت سے کولمبس کو زیادہ شہرت حاصل ہے۔ مگر امریکہ کا نام کولمبس کے نام پر نہیں ۔ اس کا نام اٹلی کے ایک تاجر امریگو (Amerigo Vespucci) کے نام پر ہے۔ امریگو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ۱۴۹۷ میں امریکہ پہنچا تھا۔ جب کہ کولمبس اس سے کئی سال پہلے امریکہ کے ساحل پر اتر چکا تھا۔ اس کی وجہ ہے کہ کولمبس کی دریافت کے با وجود امریکہ کو ایشیا ہی کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔ امریگوکی مہم نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ ایک علاحدہ بر اعظم ہے:
He established that the newly discovered lands West of the Atlantic were not a part of Asia but constituted a separate land mass (19/97).
کولمبس کا نام مشہو ر ہے مگر امریکہ اس کے نام پر نہیں۔ امریگو کا نام مشہور نہیں مگرامریکہ کو اسی کی نسبت سے امریکہ کہا جاتا ہے۔ ایک کی ذات نے شہرت پائی اور دوسرے کے کام نے۔
امریکہ کا نقشہ آپ سامنے رکھیں تو آپ پائیں گے کہ اس میں ریاستوں کی حد بندی بالکل حسابی انداز میں سیدھی لکیروں کی صورت میں کی گئی ہے۔ نقشہ کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔
اس کے برعکس ہندستان کا نقشہ دیکھیے۔ اس میں ریاستی سرحدوں کی تقسیم ٹیڑھی میڑھی (zig zag) صورت میں نظر آئے گی۔ ہندستان کے کچھ اہل علم کی رائے ہے کہ اس معاملے میں انڈیا کے نقشہ کو جدید معیار پر لایا جائے۔ مثال کے طور پر ٹائمس آف انڈیا (۲۳ جون ۱۹۹۰) میں مسٹر پر دیپ شنائے (Pradeep Shenoy) کا مضمون چھپا تھا۔ انھوں نے ہندستان میں ریاستوں کا نقشہ امریکی انداز میں مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا مجوزہ نقشہ نیچے درج کیا جاتا ہے۔
۱۹۴۷ سے پہلے کانگریس پارٹی نے عوام کو اپنے ساتھ لینے کے لیے جو وعدے کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ریاستوں کی تقسیم لسانی بنیاد پر کی جائے ۔ یہ خالص مصلحت پرستانہ سیاست تھی۔ اس کی قیمت ہندستان کو یہ دینی پڑی کہ آزادی کے بعد لسانی ریاستوں کا مطالبہ نہایت شدت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ۔نہرو اب اس کے موافق نہ تھے ۔ مگر انھوں نے محسوس کیا کہ اگر ہم نے اس مطالبہ کو نہ مانا تو کانگریس کے لیے ریاستوں میں الکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا۔ دوبارہ مصلحت پرستانہ سیاست کے تحت ملک کی تقسیم زبان کی بنیاد پر کر دی گئی۔
امریکہ میں قیام کے دوران میں زیادہ تر جناب صغیر اسلم صاحب کے ساتھ رہا۔ ان کو میں نے الرسالہ کا ایک مضمون یاد دلایا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اس طرح رہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے لیے کسی بھی اعتبار سے مسئلہ نہ بنوں بلکہ کامل طور پر‘‘ مسٹر نو پر ابلم’’ بن کر رہوں ۔ مثلاً کھانے میں آپ میرےلیے کسی بھی قسم کا کوئی اہتمام نہ کریں۔ جو کچھ آپ روز مرہ کھاتے تھے۔ بس وہی مجھ کو کھلائیں۔ ان کی اہلیہ خوش قسمتی سے نہایت سادہ مزاج کی ہیں، اس لیے اس شرط پر عمل کرنے میں کوئی زحمت پیش نہیں آئی۔
صغیر اسلم صاحب کے ساتھ لمبی مدت تک رہ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے مزاج میں اور میرے مزاج میں بہت زیادہ مطابقت ہے ۔ یہاں کے لوگوں میں وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک منفرد انسان نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ایک روز کہا :
After the Almighty God made me, He threw the mould away.
میں نے کہا کہ اس میں اتنی تبدیلی کر لیجیے کہ اس مولڈ سے اللہ تعالیٰ نے دو انسان بنائے۔ ایک آپ کو اور دوسرے مجھ کو ۔ آپ اس مولڈ کا (finished product) ہیں اور میں اس مولڈ کا (unfinished product) ہوں۔
یہاں پہلے دن میں ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ اس کے بعد آخر وقت تک میر اقیام جناب صغیر اسلم صاحب کے یہاں رہا۔ یہ دونوں صاحبان بہت زیادہ میرے ہم مذاق ہیں ۔ ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ نہایت سنجیدہ اور متواضع انسان ہیں۔ ان سے گفتگو کر کے بہت خوشی ہوتی ہے۔ وہ یہاں اسلامک سوسائٹی کے ڈائرکٹر ہیں۔ اسی کے ساتھ اپنے گھر پر بھی انھوں نے اسلامی ماحول بنا رکھا ہے۔ وہ اس بات کی ایک مثال ہیں کہ کس طرح آدمی ہر ماحول کے اندر اپنا ماحول بنا سکتا ہے۔ ایک صاحب جو’’اسلامی حکومت”قائم کرنے کے علمبردار ہیں ، انھوں نے ڈاکٹر صاحب پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ آپ اتنے دنوں سے امریکہ میں ہیں۔ آپ نے یہاں کیا کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا : آپ میرے کام کو میرے معیار سے جانچیے نہ کہ اپنے بنائے ہوئے معیارسے۔ میں نے تو الحمد للہ بہت کچھ کیا ہے۔ یہ آپ کو بتانا ہے کہ آپ اتنے دنوں سے اسلامی حکومت کی تحریک چلا رہے ہیں۔ آپ نے کیا کیا۔
صغیر اسلم صاحب بزنس کرتے ہیں۔ وہ بہت خوبیوں کے آدمی ہیں۔ ان کا ایک اصول مجھے بہت پسند آیا۔ اس کو میں اپنے لفظوں میں ‘‘چلو یہ بھی ٹھیک ہے ، پرنسپل’’ کہتا ہوں۔ جب بھی کسی سے کوئی اختلافی بات پیدا ہو تو فوراً وہ یہ کہ کہہ بات کو وہیں ختم کر دیتے ہیں کہ‘‘ چلو یہ بھی ٹھیک ہے’’ یہ اصول وہی ہے جس کو اعراض کہا جاتا ہے ۔ (باقی آئنده)