ناپ تو ل میں فرق کرنا
قرآن کی کچھ آیتوں میں زندگی کی ایک حقیقت کوبیان کیا گیا ہے۔ ان آیتوں کے الفاظ یہ ہیں: وَيۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِينَ ۔ ٱلَّذِينَ إِذَا ٱكۡتَالُواْ عَلَى ٱلنَّاسِ يَسۡتَوۡفُوْنَ ۔ وَإِذَا كَالُوهُمۡ أَو وَّزَنُوهُمۡ يُخۡسِرُونَ(83:1-3)۔ یعنی، خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورالیں۔ اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں۔
قرآن کی ان آیتوں میں ناپ اور تول کی مثال سے ایک سماجی برائی کی نشاندہی کی گئی ہے۔قرآن میں اس کو تطفیف کے لفظ میں بتایا گیا ہے ۔ اس میں اس کردار کاذکرہے جس کایہ حال ہو کہ اس کو جب اپنے لیے لینا ہو تو وہ بھر پور طور پر لے۔ اور جب دوسروں کو دینا ہو تو وہ کمی کرکے دوسروں کو دے ۔ یہ تفریق ایک ایسی اخلاقی برائی ہے جو آدمی کو تباہی کے سواکہیں اور نہیں پہنچاتی۔
اس معاملہ کا تعلق زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے۔ مثلاً خوداپنی تعریف سننے کا حریص ہونا مگر دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں بخل کرنا۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خوب ہوشیار ہونا مگر دوسروں کے مفاد کو سمجھنے کے لیے نادان بن جانا ۔ معاملات میں اپنے لیے رعایت چاہنا اور دوسروں کو رعایت دینے کے لیے تیار نہ ہونا۔ اپنی ذات کے معاملہ میں حساس ہونا اور جب معاملہ دوسروں کا ہو تو بے حس بن جانا۔ اپنے لیے انصاف چاہنا اور دوسروں کے ساتھ بے انصافی پرراضی رہنا۔ یہ تو جاننا کہ مجھے کیا پسند ہے ، مگر دوسروں کی پسند اور ناپسند کے بارے میں بے خبر رہنا۔ اپنی عزت خطرہ میں ہوتو اس کو برداشت نہ کرنا مگر دوسروں کی عزت پر حملہ ہو تو اس کے بارے میں بے حس بن جانا، وغیرہ۔
اپنے اور غیر میں اس قسم کا ہر فرق تطفیف ہے۔ جس آدمی کے اندر اس قسم کا مزاج ہووہ کبھی ترقی کے اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس قسم کامزاج آدمی کے اندر اعلیٰ صفات کی پرورش میں مستقل رکاوٹ ہے۔ اور جس آدمی کے اندر اعلیٰ صفات کی پرورش رک جائے اس کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی ترقی کے اعلیٰ مراحل طے کرنے سے محروم رہے اور آخر کار وہ اسی حال میں مرجائے۔