مشکل میں آسانی
قرآن کی سورہ الانشراح میں موجودہ دنیا میں جاری فطرت کے ایک اٹل قانون کا بیان ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر خاتمہ ایک نئے امکان کو لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے کسی بھی حال میں مایوسی کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کابیان یہ ہے:’’ پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘( 94:4-5)۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کے ایک راز کوکھولا گیا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی مسئلہ کبھی اکیلا نہیں آتا، اس کا حل بھی ساتھ آتا ہے۔ اس دنیا میں ہرڈس ایڈوانٹج (disadvantage) کے ساتھ ایڈوانٹيج (advantage)موجود ہے۔ اس دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ (minus point) کے ساتھ پلس پوائنٹ شامل ہے۔ اس دنیا میں ہر نقصان کے ساتھ فائدہ کا ایک امکان چھپا ہوا ہے۔
مشکلات اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی مصیبت یابرائی نہیں، مشکلات انسانی زندگی کے لیے ایک ترقیاتی کورس ہے۔مشکلات انسانی شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔مشکلات کے درمیان انسان کو وہ سبق اور وہ تجربہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے ذہنی ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔مشکلات انسان کے ذہن کو جگاتی ہیں۔مشکلات انسان کو سنجیدہ بناتی ہیں۔ مشکلات انسان کو حقیقت پسند بنانے کاذریعہ ہیں۔ مشکلات سے گزرنے کے بعد انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو احتیاط، ضبط نفس، ڈسپلن، احساس ذمہ داری اور اعتراف کہاجاتا ہے۔ جولوگ مشقت کے کورس سے نہ گزریں وہ سطحی انسان بن کررہ جائیں گے۔ ایسے لوگ انسانیت کے اعلیٰ درجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں کوئی حالت یکساں طور پر باقی نہ رہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ہر تاریکی اپنے ساتھ روشنی لے آتی ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اس کوکوئی سٹ بیک (setback) پیش آئے تو وہ نہ گھبرائے اور نہ وہ مایوس ہو۔ اگر وہ اپنے ہوش وحواس کو برقرار رکھے تو بہت جلد وہ دوبارہ اپنے حق میں ایک نیا امکان پالے گا۔ وہ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ ترقی اور کامیابی کی منزل پرپہنچ جائے گا۔