ذہن سازی، بزور نفاذ

عائشہ بنت ابی بکر (وفات 58ھ)کو اسلام کی تاریخ میں خاتون‌ِاوّ‌ل‌(First Lady)کا مقام حاصل ہے۔ وہ خلیفۂ اوّل ابوبکر صدیق کی صاحبزادی تھیں پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ‌محترمہ‌بنیں‌۔وہ قرآن کی ایک بڑی عالمہ تھیں‌۔ علم حدیث میں ان کو مجتہدا نہ مقام حاصل تھا‌۔

عائشہ صدیقہ کوپیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طویل عرصہ تک انتہائی قریبی صحبت کا موقع حاصل ہوا۔چنانچہ انھوں نے بہت سی گہری حکیمانہ باتیں دریافت کیں، ان میں سے ایک یہ ہے۔ عائشہ صد یقہ کہتی ہیں کہ قرآن میں سب سے پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے (حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ)تو حرام اور حلال کے احکام اترے۔ اور اگر پہلے ہی یہ اتر تاکہ تم لوگ شراب نہ پیو تو ضرور وہ کہتے کہ ہم شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ اتر تا کہ تم لوگ زنا نہ کرو تو ضرور وہ کہتے کہ ہم کبھی زنا نہ چھوڑیں گے ( لاَ نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا‏وَ لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا)صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993۔

  مذکورہ روایت میں بے حد اہم بات بتائی گئی ہے۔یہ روایت بتاتی ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کے لیے اسلام کا طریقہ کیا ہے۔ یعنی وہ طریقہ جس کے ذریعہ کسی معاشرہ میں مثبت اورحقیقی نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں اور انسانی معاشرہ میں حقیقی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ وہ طریقہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ پہلے فکری مہم کے ذریعہ افراد کے ذہن کو بدلنا اور پھر قبولیت کے بعداجتماعی سطح پر احکامِ شریعت کو نافذ کرنا۔

عجیب بات ہے کہ یہ حقیقت عائشہ صد یقہ نے پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ صحبت میں جان لی تھی اور امت کو اس سے باخبر کر دیا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما اور مفکرین سارے قرآن و حدیث کو پڑھنے کے باوجوداس اہم حقیقت سے بے خبر رہے اور اب تک بے خبر ہیں ۔ وہ ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں میں اقتدار پر قبضہ کر کے اچا نک اسلامی شریعت کے نفاد کی کوشش کررہے ہیں ۔ مگر ہر بار یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ لوگ ، عائشہ صدیقہ کے الفاظ میں،یہ کہہ کرشرعی احکام قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں—  ہم (اپنی پرانی روش)کبھی نہ چھوڑیں گے ۔ اس ناکامی کا سبب یقینی طور پر یہی ہے کہ ذہن سازی کا کام کیے بغیر شرعی احکام کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔

معاشرہ کی اصلاح کا نقطۂ آغاز(starting point)کیا ہے۔ اس کو پیغمبر اسلام کے واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہجرت سے پہلے جب آپ مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہاکہ اگر تم اس کے ذریعہ سے عزت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سرداربنالیں گےاور اگر حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپناحاکم بنانے کے لیے تیار ہیں( وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ مُلكًا مَلَّكْنَاك عَلَيْنَا)۔ آپ نے فرمایا: میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا۔ لیکن اللہ نے مجھے تمھاری طرف بطور رسول بھیجا ہے(وَلَكِنَّ اللهَ بَعَثَنِي إلَيْكُمْ رَسُولًا)سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ262-63۔ دوسرے الفاظ میں، تم لوگ میری بات سنو، اور خدا پر ایمان لاؤ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of the mind) کرنا ہے۔ اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points)پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا:

Change in personality, status quoism in political system

اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میں اضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں — حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے بگاڑ کا تعلق سوچ سے ہے۔ اصلاح کا راز یہ ہے کہ انسانی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔ انسانی سوچ کو بدلے بغیر کوئی بھی اصلاح ممکن نہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom