الفاظ، الفاظ، الفاظ
کچھ لوگ بولتے ہیں، وہ مسلسل طور پر بولتے ہیں، ان کے الفاظ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ لیکن یہ الفاظ معانی سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں نہ کوئی تجزیہ(analysis) ہوتا ہے، نہ کوئی وزڈم (wisdom) ، نہ کوئی گہری معنویت۔
یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس الفاظ کا کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن یہ الفاظ حکمت سے خالی ہوتے ہیں۔ آپ ان کی باتوں کو گھنٹوں سنتے رہیے، لیکن ان کی باتوں میں آپ کو کوئی حکمت یا کوئی لرننگ کی بات نہیں ملے گی۔ حتی کہ آپ اس سے بھی بے خبر رہیں گے کہ انھوں نے کیا کہا۔ ان کی باتوں میں آپ کو کوئی ٹیک اوے (takeaway)نہیں ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس حافظہ (memory)ہوتا ہے، مگر ان کے پاس دانش مندی (wisdom) نہیں ہوتی۔ ان کے پاس گہرا مطالعہ نہیں ہوتا۔
فارسی کا ایک مثل ہے: یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ کرے، اس کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پائی جاتی ہو، وہ نفرت اور تعصب سےخالی ہو، وہ چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے۔اس کے اندر وہ صفت موجودہ ہو ،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتّباعه، وأرِنَا البَاطِلَ بَاطِلاً،وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَه، وَلَا تَجْعَلْهُ مُلْتَبِسًا عَلَيْنَا فَنَضِلَّ (تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر مبہم (ambiguous)نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا:اللَّهُمَّ أَرِنَا الْأَشْيَاءَ كَمَا هِيَ (تفسیر الرازی، جلد 13، صفحہ 37) ۔ اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔