لالچ کانقصان
قرآن میں ایک ایسی اخلاقی برائی کی نشاندہی کی گئی ہے جو انسان کی کامیابی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُمۡ وَٱسۡمَعُواْ وَأَطِيعُواْ وَأَنفِقُواْ خَيۡرًا لِّأَنفُسِكُمۡۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفۡسِهِ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (64:16)۔ پس تم اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے۔ اور سنو اور مانو اور خرچ کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور جو لوگ اپنے جی کے لالچ سے بچا لیے گئے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
شُحّ نفس کا مطلب ہے حرص (greed)، یعنی اپنی ضرورت سے زیادہ کا خواہش مند ہونا۔یہ دراصل دل کی تنگی ہے۔ انسانوں میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ تنگ دل اور فراخ دل۔ تنگ دل انسان وہ ہے جو اپنی ذات کے دائرہ میں محدود ہوکر سوچے۔جس کا مقصد صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہو۔ یہی وہ آدمی ہے جو لالچ یا شح نفس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کوئی شخص جب بھی کوئی فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ سماج کے مجموعی تعاون کی مدد سے حاصل کرتا ہے۔ ایسی حالت میں لالچ یاتنگ دلی کامطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے لیے تو سماج سے لینا چاہتا ہے مگر وہ خود سماج کو دینا نہیں چاہتا ۔ اس قسم کی خود غرضی کبھی کسی کے لیے مفید نہیں ہو سکتی ، نہ فرد کے لیے اور نہ قوم کے لیے۔یہ حقیقت ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى (صحیح البخاری، حدیث نمبر1427)۔ یعنی، دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اس دنیا میں کامیابی صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو کھلا دل رکھتے ہوں۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ جتنا بڑا دل اتنی بڑی کامیابی ۔ بڑے دل والا آدمی اس بات کا حوصلہ رکھتا ہے کہ وہ دوسروں کی رعایت کرے۔ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچا کر خوش ہو۔ وہ شکایت کے باوجود دوسروں کے ساتھ بہتر معاملہ کرے۔ وہ معاملات کو بلند سطح سے دیکھے ۔ جس آدمی کے اندر یہ اعلیٰ صفات ہوں وہ لوگوں کے درمیان باعزت درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ اور جو آدمی دوسروں کے درمیان باعزت درجہ حاصل کرلے اس کی کامیابی کوکوئی روکنے والانہیں۔