ڈی کنڈیشننگ کی ضرورت
قرآن کے مطابق، جنت میں داخلہ ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا میں اپنا تزکیہ کیا ہوگا۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:وَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76) ۔ یعنی ،اور یہ (جنت) جزاء ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنا تزکیہ کیا۔اس آیت میں جس تزکیہ کا ذکرہے اس کو انسانی زبان میں ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
ڈی کنڈیشننگ دوسرے الفاظ میں سیلف کریکشن (self-correction) کے عمل کا نام ہے۔ آدمی اپنے بچپن اور جوانی کی عمر میں ذہنی اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں وہ تجزیہ کرنے اور صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر آدمی اپنے ماحول کے اعتبار سے متاثر ذہن (conditioned mind)بن جاتا ہے۔اس حقیقت کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پرفطرت صحیحہ پر ہوتا ہے۔ مگر ماحول سے متاثر ہو کروہ غیر فطری زندگی اختیار کرلیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
اس کو نفسیات کی اصطلاح میں کنڈیشننگ(conditioning) کہتے ہیں۔اس کنڈیشننگ کی بنا پر آدمی اس قابل نہیں رہتا کہ وہ چیزوں کو بے آمیز صورت میں دیکھ سکے۔ وہ چیزوں کو ویسانہیں دیکھتا جیسا کہ وہ ہیں۔ بلکہ وہ چیزوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسا کہ اس کاذہن اس کو دکھانا چاہتا ہے۔اس لیے صحیح طرز فکر یاآبجیکٹیو تھنکنگ(objective thinking) کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے ۔ وہ اپنے ذہن کے اوپر پڑے ہوئے مصنوعی پردوں کو ایک ایک کرکے ہٹادے، اور دوبارہ اپنے آپ کو فطری شخصیت بنائے۔خود احتسابی کایہ عمل ہر آدمی کو لازماً کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی آدمی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ وہ حقیقت شناس بنے، وہ چیزوں کے بارے میں بالکل درست رائے قائم کر سکے۔دوسرے الفاظ میں، ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی انسان فطری شخصیت یامزکیٰ شخصیت نہیں بن سکتا ۔