ایک سوال

افغانستان میں طالبان اقتدار حاصل کرنے کے بعدیہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ اسلامی قانون نافذ کریں گے۔ اِس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟(ایک قاری الرسالہ، دہلی)

جواب

 موجودہ زمانے میں افغانستان کے مسئلہ کو بہت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف اِس لیے پیدا ہوا کہ وہاں کے مسلم لیڈروں نے دانشمندی کا طریقہ اختیار نہیں کیا،نہ مذہبی لیڈروں نے اور نہ سیکولر لیڈروں نے۔اگر افغانستان میں سیاسی معاملے میں خیرالشّرَّین(دو برائیوں میں سے کمتربرائی)کو اختیار کرنے کا اصول اپنایا جاتا تو یہ مسئلہ بہت پہلے ختم ہو چکا ہوتا۔ یعنی سیاسی معاملے میں اسٹیٹس کوازم کا طریقہ اختیار کرنا، اور اپنی توانائی کو تخریب کے بجائے تعمیر میں لگانا۔

صحیح البخاری ( حدیث نمبر 4993)میں حضرت عائشہ کا بیان ذکرکیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دلوں کو بدلا، اس کے بعد شرعی قانون پر عمل کرنے کا حکم دیا۔دلوں کو بدلنا یعنی ذہن سازی کرنا۔ افغانستان کے طالبان اِس کے برعکس ، بم اور گن اور بندوق وغیرہ کے ذریعے اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی فرق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ طالبان اسلامی قانون کے نفاذ میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ وہ اپنی انتہا پسندانہ اور متشددانہ کاروائیوں کے ذریعے افغانستان میں جو چیز لائیں گے ، وہ صرف تباہی ہوگی۔وہ نہ کوئی دینی تربیت کر سکیں گے اور نہ کوئی مادی تعمیر۔

ذہن سازی کے بغیر اگر قانون نافذ کیا جائے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے، اس کو ذیل کے واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔انڈیا کےمشہورانگریزی صحافی مسٹر خشونت سنگھ (1915-2014)نے لکھا ہے کہ میں ہندستان سے پاکستان گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز لاہور کی فضا میں پہنچا تو جہاز میں اناؤنسر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں شراب ممنوع ہے۔ کوئی مسافر شراب کی بوتل کے ساتھ پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ لوگوں میں سے جس شخص کے پاس شراب ہو وہ اس کو جہاز کے عملے کے پاس جمع کردے۔ مسٹر خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ میرے پاس شراب کی ایک بوتل تھی۔ یہ بوتل میں نے حسبِ اعلان ہوائی جہاز کے عملے کے حوالے کردیا۔ مگر اس کے بعد جب میں لاہور کے اندر داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ بلیک مارکیٹ میں شراب نہایت فراوانی کے ساتھ بک رہی ہے، اور میں بلیک سے جتنی چاہے شراب خرید سکتا ہوں۔

یہ واقعہ میں نےایک عالم دین کو سنایا، اور کہا کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم ملکوںمیں شراب بند کی گئی ہے، وہاں اس کا یہی انجام ہوا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں کا ذہن بنایا اس کے بعد شراب کی حرمت کا اعلان کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 8620)۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں پہلے اس کے موافق ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔ محض قانون کے زور پر لوگوں کو شراب نوشی سے روکا نہیں جاسکتا۔

انھوں نے کہا کہ مگر یہ طریقہ ہم کو اسلاف کے یہاں نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال تک قانون ہی کے زور پر شراب کو روکا جاتا رہا۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ پہلے ذہنی فضا بنائی جائے اس کے بعد شراب پر پابندی لگائی جائے۔

میں نے کہا کہ پچھلے زمانے پر موجودہ زمانہ کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ پچھلا زمانہ وہ ہے، جب کہ اسلامی روایات کا تسلسل برابر جاری تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلامی روایات کا تسلسل یکسر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دوبارہ وہی ضرورت پیش آگئی ہے، جو رسول اللہ کے زمانےمیں تھی۔ اب ہمیں دوبارہ اسلامی روایات قائم کرنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی قانون کا نفاذ مفید ہوسکتا ہے۔ کیوںکہ قانون ہمیشہ روایات کے زورپر نافذ ہوتاہے، اورموجودہ زمانے میں شراب بندی کے قانون کے لیے روایات کا زور موجود نہیں ہے۔

اسلامی مشن کا نشانہ فرد (individual) کو ربانی انسان بناناہے، نہ کہ نظام (system) کو۔ اسلام کا مقصد انسان کا تزکیہ کرکے اس کو جنتی انسان بنانا ہے ، نہ کہ سسٹم کو اسلامائز کرنا۔ مثلاً تقویٰ، معرفت، دعوت، حسنِ اخلاق، خیرخواہی ، وغیرہ کا ذہن انسان کے اندر پیدا کرنا۔ جب انسان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوجائے تو وہ خود بخود دوسرے اسلامی احکام کو مان لیتا ہے، جیسا کہ شراب کی حرمت کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom