اعلیٰ اخلاق
سورہ القلم میں اعلیٰ اخلاق اور بلند کر دار اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس کو انسانیت کا اعلیٰ مرتبہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ(68:4)۔ یعنی، اور بے شک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو۔
افراد کے اندر اچھا اخلاق ہونا کسی سماج کو اچھا سماج بناتا ہے۔ اور افراد کے اندر برا اخلاق ہونا کسی سماج کو برا سماج بنا دیتا ہے۔ اخلاق دراصل، داخلی احساس کا خارجی اظہار ہے۔ داخلی سطح پر کوئی انسان جیسا ہوگا، اُس کا اثر اس کے خارجی برتاؤ پر پڑے گا۔
اس آیت میں بظاہر رسول سے خطاب ہے ۔مگر وہ ہر انسان کے لیے ایک عمومی تعلیم ہے۔ وہ ہر انسان کو اعلیٰ انسان بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کرعمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی ، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے۔ خواہ دوسرے اس کے ساتھ برائی ہی کیوں نہ کررہے ہوں۔
اعلیٰ انسان کا اخلاق یہی دوسرااخلاق ہوتا ہے ۔ اس قسم کااخلاق کسی انسان کے بارے میں یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک بااصول انسان ہے۔ ایسا اخلاق اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کی شخصیت حالات کی پیداوار نہیں بلکہ وہ خوداپنے اختیار کردہ اعلیٰ اصول کی پیداوار ہے۔ جس انسان کے اندر اس قسم کا اعلیٰ اخلاق ہو وہی حقیقی انسان ہے اور جس آدمی کے اندریہ اعلیٰ اخلاق نہ پایاجائے وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اعلیٰ اخلاق کی صفت انسان کو حیوان سے جد اکرتی ہے۔ حیوان مساویانہ اخلاق کی سطح پر جیتے ہیں۔ کوئی ان کو نہ چھیڑے تووہ بے ضرررہیں گے اور اگر کوئی ان کو چھیڑدے تو وہ اس کے لیے ضرر رساں بن جائیں گے۔ اعلیٰ انسانی اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویہ سے بلند ہو کر اپنا رویہ بنائے۔ دوسرے لوگ خواہ اس کے ساتھ اچھے نہ ہوں مگر وہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے۔