داعیانہ کردار
سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کی چیرپرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے سی پی ایس لیڈیز ٹیم کے ایک آن لائن پروگرام میں مندرجہ ذیل تقریر کی تھی:
مولانا وحیدالدین خاں صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ "دعوت الی اللہ کا مشن اختیار کرنے کے لیے داعیانہ کردار ضروری ہے۔ جو شخص دعوتی عمل کا کریڈٹ لینا چاہتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرے"۔هم داعيانہ کردار کو رسول اللہ ﷺ اور اصحابِ رسول کے نمونہ سے بهت اچھے طريقے سے سمجھ سكتے هيں۔ رسول اللہ کے زمانے میں بار بار ایسا ہوتا تھا کہ مدعوغصه هوجاتے تھے۔ ليكن آپ اور آپ کےا صحاب اعراض کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔
مثال كے طور پر مصعب بن عمير خدا کا پيغام پهنچانے مدينه گئے تھے ۔وهاں قبیلہ اوس كے ایک بڑے سردار اسيد بن حضير كو جب ان كي دعوتي سرگرميوں كي خبر هوئي تو بهت غصه هوئے كه تم هماري عورتوں اور همارے بچوں كو بهكانے آئےهو (فَوَقَفَ عَلَيْهِمَا مُتَشَتِّمًا، فَقَالَ:مَا جَاءَ بِكُمَا إلَيْنَا تُسَفِّهَانِ ضُعَفَاءَنَا) ۔ مصعب بن عمير نے بهت ٹھنڈے طريقے سے جواب ديا كه پهلے آپ تھوڑي دير بيٹھ كر ميري بات سنيں، پھر اس كے بعد آپ جو فيصله كريں وہ مجھے منظور هوگا۔ اسيد بن حضير نے كها كه تم نے بهت انصاف كي بات كهي اور سننے كے ليے بيٹھ گئے۔ اس كے بعد مصعب بن عمير نے قرآن كا ايك حصه پڑھ كر سنايا۔ وه خاموشي سے سنتے رهے اس كے بعد كها:’يه كلام كتنا عمده اور كتنا اچھاهے‘(مَا أَحْسَنَ هَذَا الْكَلَامَ وَأَجْمَلَهُ)، اور وہ مصعب بن عمیر کے ساتھی بن گئے (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 436)۔ اس طرح بہت جلد مدینہ کے تمام باشندے آپ کے فولڈ میں آگئے۔
يهي سارے صحابه کا طریقہ تھا، وه غصے كا جواب غصے سے نهيں ديتے تھے۔ كيونكه وه اس بات کے بهت زياده حريص تھے کہ خدا کے بندوں کو خدا کا پيغام پهنچایا جائے۔اگر وہ غصه کا طریقہ اختیار کرتے تو حالات دعوتی عمل کے لیے نارمل نہ ہوپاتے ۔ اس وجه سے وه ہر موقع پر اوائڈنس کا طریقہ اختیار کرتے تھے، اور آخری حد تک صبر و برداشت کے اصول پر قائم رہتے تھے۔
رسول اللہ کے زمانے میں اس قسم کی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ فتح مكه كے بعد رسول الله صلي الله عليه وسلم نے مختلف علاقوںميں تبليغي و فود بھيجے تھے ۔مثلاًآپ نے اپنے دو صحابہ حضرت ابو موسي اور حضرت معاذ بن جبل كو اسلام كي تبليغ كے ليے يمن بھيجا۔ ان دونوں كو بھيجتے هوئے آپ نے يه نصيحت كي:’’تم لوگ آساني پيدا كرنا مشکل پيدا نه كرنا، تم لوگ خوش خبري دينا، لوگوں كو متنفر نه كرنا (يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا) ‘‘صحیح البخاری، حدیث نمبر 3038 ۔انھوں نے انتہائی نرمی سے لوگوں سے بات چیت کی۔ تمام لوگ متاثر ہوگئے، اور پیغمبر اسلام کے سچے ساتھی بن گئے۔
لیکن موجودہ دور میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ میری ایک دوست بتا رهي تھيں كه انھوں نے اپنے بچے كے ليے ايك مولوي صاحب كو لگايا كه وه ان كو دين اسلام كي باتيں بتائيں۔ ليكن وہ آتے هي بچوں كو جهنم سے ڈرانے لگے، ان کو ڈوز اینڈ ڈونٹز (do’s and don’ts) کی زبان میں دین کی باتیں بتانے لگے ۔یہ بچے انگلش اسكول کے پڑھنے والے تھے، ان کو اس قسم کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں، انھوں نے مولوی صاحب سے پڑھنے سے انکار کردیا ۔ اگر مولوی صاحب ان كو پيراڈائز كي باتيں بتاتے، دین کی باتوں کو ریزن آؤٹ کرکے بتاتے تو ان کے اندر دلچسپی پیدا ہوتی، اور وہ مولوی صاحب كي باتوں کو سمجھتے ۔ تو يهي وہ حکمت ہے،جس کے لیے رسول الله صلي الله عليه وسلم نے كها كه تم لوگ آساني پيدا كرو، مشکل پيدا نه كرو، لوگوں کو خوشخبري دو ،ان كو متنفر نه كرو۔
اسلام دين فطرت هے، وه هر آدمي کی فطرت کی آوازهے۔ اسلام كو قابلِ قبول بنانے كے ليے صرف اتني بات كافي هے كه لوگوں سے معتدل تعلقات قائم كيے جائيں۔ اور اسلام كے مثبت پيغام سے انھيں با خبر كرديا جائے۔قرآن كي سوره الاحزاب ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كو خطاب كرتے هوئے دعوت كے آداب بتائے گئے هيں۔ اس كاایک جزء يه هے:’’ان كے ستانے كو نظر انداز كرو، اور الله پر بھروسه ركھو، الله بھروسے كے ليے كافي هے (وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا)33:48۔ ‘‘
اس آیت کے مطابق، جب کوئی آدمی دعوتي کام كرے گا تو ضرور ایسا ہوگا کہ مدعو كي طرف سے زيادتياں پیش آئیں گی۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ ان زیادتیوں كو نظر انداز كرے۔ مدعو اگر هماري دعوت كو سن كر ردِ عمل كا اظهاركرتا هے تو اسے اعراض كرتے هوئے هميں اپني دعوتي مهم كو جاري ركھنا هے۔
قرآن كي سوره طٰہٰ آیت 44ميں بتايا گياهے کہ الله تعالي نے جب حضرت موسي كو فرعون كي طرف اپنے پيغام كے ساتھ بھيجا تو ان کو بطور خاص یہ حکم دیا تھا:’’پس اس سے نرمي كے ساتھ بات كرنا، شايد وه نصيحت قبول كرے يا ڈر جائے۔‘‘ اب آپ سوچيے كه ايسا جابر اور ڈكٹيٹر حکمراں، جس نے سب سے بڑا رب ہونے کا دعوی کیا تھا ۔ اس نے کہا تھا:أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى(79:24)۔یعنی، میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں۔ اس کے بارے میں بھي الله تعالي كهه رهے هيں كه اس سے نرمي سے بات كرنا، جب كه الله تعالي كے علم ميں سب كچھ تھا كه وه سركش هے اور خدا كے پيغام كوماننے والا نهيں، پھر بھي اللہ نے اس کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا۔
لہٰذاداعي كے ليے ضروري هے كه وه خدا كو بهت زياده ياد كرے اور وه يه سمجھ كر دعوت کا کام كرے كه وه خدا كا كام كررها هے۔ تو خدا كے كام ميں اگر اس كو كوئي تكليف پهنچے، كوئي مسئله پيدا هوتاهے تو وه ری ایکٹ نہیں کرے گا، وہ ہر حال میں خوشی خوشی کام کرے گا كه اس نے اپنے رب کے لیے كام كياہے۔ اگر آسانی سے كام هوجاتا تو اس كا اتنا ثواب نهيں هوتا۔ ليكن جب اس كے ليے كچھ مصيبت اٹھانا پڑے، كچھ تكليف اٹھانا پڑے تو اس كا ثواب بهت زياده هوگا۔
نرمي اس ليےهےكه مدعو بھی انسان ہی ہے، اس کا غصه جو دكھائي ديتا هے وہ اس كا اوپری اوپري رويه هوتا هے، اس كي اندروني فطرت ميں وه صلاحيت موجود رهتي هے كه كوئي حق بات اگر معقول انداز ميں كهي جائے تو اس كي فطرت اس كو مجبور كرے گي كه وه اس پر ٹھنڈے دل سے غور كرے۔ اس کے برعکس، اگر هم بھي غصه هونے لگيں، هم بھي اپنے ايگو سے مغلوب هوکر کوئی ردعمل ظاہر کريں تو مدعو كا كانشنس نہیں جاگےگا، تاكه وہ ايك ريشنل اور لاجيكل بات کو مان لےجو اس كي فطرت كي آواز هے ۔ اس كو ايك ضد هوجائے گي، اوروه بات كو نارمل طريقےسے نهيں لے پائے گا۔
ايك بار ميں نئی دہلی کے ايك پارك میں گئی ، جس کا نام لودھي گارڈن ہے۔ وهاں میں نے قرآن اور لٹريچر ايك سردار جي اور ان كي فيملي كو دينا چاہا۔ سردار جي نےسختی سے كها كه هم كيوں ليں آپ كي كتاب، کیا آپ هماري كتاب پڑھتی هيں۔ هم نے كها كه هم هرچيز پڑھتے هيں آپ ديجیے۔ پھر انھوں نے كه آپ ’ست سري اكال‘ كهيں گے۔ هم نے كها كه هاں هم كهيں گے، هم نے دهرا ديا۔ اسي طرح سے انھوں نے اپنے مذہب کی كئي باتيں پوچھيں ،اب وه مجھے ياد نهيں، ميں نے نرم انداز ميں سب كا جواب ديا۔وہ لوگ بهت خو ش ہوگئے۔ سب نے هماري كتابيں بهت خوشي خوشي ليں۔
قرآن كي سوره النساء ميں پيغمبر اسلام سے خطاب كرتے هوئے كها گيا هےکہ جوتمھارے مخالفین هيں، تم ان سے اعراض كرو اور ان كو نصيحت كرو، اور ان سے ايسي بات كهو جو ان كے دلوں ميں اتر جائے(4:63)۔ "مخالفين سے اعراض کرو"كا مطلب يه نهيں هے كه بحیثیتِ انسان ان كو کمتر سمجھ کر نظرانداز كرو، بلكه اس کا مطلب یہ ہے کہ ان كي مخالفت پر ری ایکٹ نہ کرو۔ يعني مخالفت کا منفی اثر نہ لو۔ اور اگر تم نے ذرا بھي بحث ومباحثه كياتو ڈسکشن کا موضوع بدل جائے گا۔ اسي ليے اپنے موضوع پر قائم رهنے كے ليے هميں اعراض كرنا چاهيے، اسی وجہ سے بهت زياده اعراض كي تلقين كي گئي هے۔
رسول الله صلي الله عليه وسلم مسلسل اعراض كرتے تھے، آپ كے صحابه اعراض كرتے تھے۔ اِس كے ليے سب سے بڑي ضرورت یہ هے كه اپنی انا (ego) كو کنٹرول کیا جائے۔ اس کے بعد دعوت كے باقي سارے آداب خود بخود پيداهوجائيں گے۔
قرآن كي سوره النحل ميں ارشاد هوا هے كه ’’اپنے رب كے راستے كي طرف حكمت اور اچھي نصيحت كے ساتھ بلاؤ اور ان سے اچھے طريقے سے بحث كرو‘‘ (16:125)۔ بحث (جدال احسن )کا مطلب ہےڈسكشن اور ڈائلاگ ۔ اچھے طريقے سے بحث كرو، يعني اگر وه غير ضروري بحث كريں تب بھي تمهارا انداز نرم رهے۔ وه ٹيڑھي بات كريں، تب بھی اس كا جواب سيدھے طريقے سے ديا جائے۔ ان کے سخت الفاظ سن كر بھي اپني زبان سے نرم الفاظ نكالنا ہے۔ اگر دوسرا پرووك (provoke)كرنا چاهے تو بھی داعي کو پرووك نهيں هونا ہے۔يه داعي كا كردار هے كه مدعو كي طرف سے پيش آنے والي هر تكليف پر صبر كرے۔ مدعو سے حساب چكانے كے بجائے ايسے تمام معاملات كو خدا كے خانے ميں ڈال دے۔ جو انسان صحيح معني ميں الله سے ڈرنے والا هوتا هے اس كے اندر يه كردار پيداهوجاتا هے ۔ اس كو يه گهرا يقين هوتاهے كه يه خدا كا پيغام هے اور وه خدا كے ليے يه كام كررها هے تو اس كو هر حالت ميں اس كام كو بحسن خوبي انجام دينا هے۔
هر پيغمبر نے يهي كها كه ميں تمهارے ليے ناصح هوں اور امين هوں۔ ناصح كالفظی مطلب ہے خيرخواه، اور امين كا مطلب ہے امانت دار۔ خير خواهي كا مطلب يه هے كه وه دوسرے كا همدرد هو، وه اس کا بھلا چاہنے والا هو۔منصوبۂ تخلیق کے مطابق، وہ تمام انسانوں كو پرامن انداز میں هدايت پہنچانے كا حريص هو۔ يه خير خواهي اس كو مجبور كرتي هے كه وه مدعو كي منفی روش سے بے پروا هو كر يك طرفه طور پر اس كي هدايت كا حريص بنا رهے۔چنانچه داعي اپني تنهائيوں ميں مدعو كے ليے دعا كرتاهے۔ وه سوچتا هے كه ميں كون سا انداز اختيار كروں كه ميري بات مدعو كے ليے زياده سے زياده قابلِ فهم هوجائے۔ يه ساری چیزیں اسي وجه سے هیں كه اس كے اندر انسانی همدردي كا بهت گهرا جذبه هوتا هے ۔ يه چيز اس كو مدعو كي زيادتيوں كو نظر انداز كرنے والا بناتي هے۔ اگر مدعو كڑوا بول بولے تب بھي داعي ميٹھا بول بولتاهے۔اس بات کو آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں كه جيسے اپنا بچه هوتا هے كتنا هي غلط كام كرے تو اسے نرمي سے سمجھايا جاتا هے ،سختي نهيں کی جاتی ہے۔كيونكه ماں باپ کو بچوں سے جو گہرا تعلق هوتا هے وه والدین كو مجبور كرتا هے كه وہ بهت نرمي سے اپنے بچے كو سمجھائیں، تاکہ بات اس کے دل میں اتر جائے۔
يهي معاملہ داعی اور مدعو کا ہے۔ داعي كے دل ميں مدعو كي شفقت اتني بڑھي هوئي هوني چاهيے كه وہ کسی بھی حال ميں مدعو سے نفرت نہ کرے ۔هر حال ميں وه اس كي هدايت كا حریص ہو، تنهائيوں ميں وہ اس کے لیے دعا كرے۔ایسی دعا ضرور قبول هوتي هے۔ ايسے بهت سے واقعات هيں کہ دعا كرنے كے بعد جب دعوت دي گئي تو ان كے دل ميں بات اتر گئي۔ مثلاً ابوہریرہ کی ماں کا واقعہ جو صحیح مسلم (حدیث نمبر 2491)میں بیان کیا گیا ہے۔
رسول الله صلي الله عليه وسلم كي اور صحابه كي پوري زندگي ميں طرح طرح كي مثاليں پائي جاتی ہیں۔ ايك كتاب هے حياۃ الصحابه، اس کے مصنف مولانا زکریا کاندھلوی صاحب ہیں۔ اس ميں صحابه كے بہت سے واقعات هيں، یعنی وہ کتنا زیادہ اس بات کے لیے بے چين رهتے تھے كه لوگوں كو كیسے هدايت كا پيغام پهنچا یا جائے۔كيونكه وه يه سمجھتے تھے كه يه خدا كا پيغام هے اور اس کے پہنچانے پر ان کو خدا کے یہاں كتنا زياده اجر ملے گا۔ ان كے سامنے خدا اور اس کی جنت هوتي تھي۔ اسي ليے وه بے چين رهتے تھے كه اس پيغام كولوگوں تک هر حال ميں پهنچانا هے۔
سادگي ، سنسيرٹي (sincerity)، ماڈسٹي (modesty)اور انسانی خيرخواهي اور لوگوں کے ساتھ مل جل كر رهنا۔ یہ نمونے ہیں جو ہمیں صحابہ کی زندگیوں میں ملتے ہیں۔اس کے لیے صرف یہ شرط ہے کہ داعی اپنی انا کو ختم كردے، تواضع كے ساتھ رهے، اورسادگی (simplicity) كا طریقہ اپنائے ۔ صحابہ کرام نے اپنے زمانے میں دنیا کے بڑے حصے میں لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ان كي سادگي اور تواضع كو ديكھ كر لوگ متاثر هوجاتے تھے۔ ان صفات کو ہمیں اپنی زندگی میں اپنانا ہوگا۔ ایک اچھا داعی بننے کے لیے یہ صفات نہایت ضروری ہیں۔ آج لوگ اپنے اور غیر (we and they) کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ روش خیر خواہی کی قاتل نفسیات ہے، یہ دعوتی عمل کے لیے انتہائی نقصان دہ روش ہے۔
ابتدائے اسلام ميں جب مسلمان انڈيا آئے، تو وه سب سے پهلے كيرالا آئے۔ وهاں انھوں نےقومی شناخت کے نام پر اپنے آپ کو مقامی آبادی سے الگ نہیں کیا، بلكه وہ مقامی لوگوں سے مل جل كر رهے ، یہاں تک کہ انھوں نے مقامی عورتوں سے شادياں بھی كيں۔ اس وجه سے وهاں پر ان كے ليے خدا کا پیغام پہنچانابہت آسان هوگيا ۔ اگر وه اپنا الگ كلچر چلاتے، اپنے اور غیر کی نفسیات میں جیتے، جيسے آج كل مسلمان اپنا الگ كلچر چلاتے هيں تو صحابہ قدیم دور میں دعوت کا کام نہیں کرپاتے۔ اپنے اور غیر کی نفسیات سے دورياں بڑھتي هيں۔ اس لیے هميں واپس جانا هے، رسول الله صلي الله عليه وسلم ، اور ان کے صحابه كي زندگيوںکو جاننا هے، وهاں سے اپنے ليے عملی نمونہ تلاش كرنا هے۔ آج كے قومی رہنماؤں میں ایسی مثالیں نہیں ملیں گی ۔ وهاں آپ كو حقیقی اسلام نهيں ملے گا۔ اس وجه سے آپ كو رسول الله صلي الله عليه وسلم كي سيرت كو پڑھنا چاہیے،صحابه كي زندگيوں كو پڑھنا چاہیے۔ اس سے آپ كي سمجھ ميں آجائے گا كه داعيانہ كردار کیا ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)