مستقبل کی دنیا
Emerging New World
موجودہ زمانے میں دو مختلف آئڈیالوجی اُبھری— سیکولرآئڈیالوجی اور مذہبی آئڈیالوجی۔ سیکولرآئڈیالوجی سے مرادوہ آئڈیالوجی ہے جو خالصتاً انسانی عقل (reason) کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مذہبی آئڈیالوجی ہے، یعنی انسانی اضافوں سے پاک خدائی دین ،جو پیغمبر کی رہ نمائی کے تحت بنی۔ موجودہ زمانے کا یہ ایک عجیب ظاہرہ ہے کہ سیکولر آئڈیالوجی اب اپنی مایوسی کے آخری دور میں پہنچ رہی ہے۔ اِس کے برعکس، تمام قرائن (clues) بتارہے ہیں کہ مذہبی آئڈیالوجی نئی صبح کی مانند انسان کے اوپر طلوع ہونے والی ہے، بلکہ وہ طلوع ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جدید مادّی ترقیوں کے بعد سیکولر مفکرین نے یہ یقین کرلیا کہ بہت جلد ہمارے سیّارۂ زمین (planet earth) پر وہ بہتر دنیا بننے والی ہے، جس کا خواب ہزاروں سال سے انسان دیکھتا رہا ہے۔ اِس آئڈیالوجی کی ایک نمائندہ کتاب فیوچر شاک (Future Shock) ہے، جس کو اُس کے مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) نے پہلی بار 1970 میں شائع کیا۔یہ کتاب شائع ہوتے ہی بیسٹ سیلر بن گئی۔اِس کتاب میں مصنف نے یقین کے ساتھ یہ پیشین گوئی کی تھی کہ دنیا تیزی کے ساتھ انڈسٹریل ایج سے ترقی کرکے سُپر انڈسٹریل ایج میں داخل ہونے والی ہے۔ یہ سویلائزیشن کا اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ ہوگا، جب کہ انسان کی تمام مادّی خواہشیں اپنا مکمل فلفل مینٹ (fulfillment) پالیں گی۔
مگر اکیسویں صدی کاآغاز اِس قسم کے تمام اندازوں کے خاتمے کے ہم معنی بن گیا۔ اب شدت کے ساتھ وہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی (pollution) نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کیے، جب کہ یہ دنیا انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable) ہی نہیں رہے گی۔ میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں نے گہری ریسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ ناقابلِ تبدیلی (irreversible) ہوچکی ہے۔
یہ سائنس کی زبان میں قیامت کی پیشین گوئی ہے، یعنی زمین پر موجودہ حالات کا خاتمہ اور ایک نئی تاریخ کا آغاز۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 نومبر 2007) نے گلوبل وارمنگ کے موضوع پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اِس رپورٹ کے عنوان کے لیے اُس نے بامعنی طور پر اِن الفاظ کا انتخاب کیا تھا— قیامت اب زیادہ دور نہیں:
Doomsday not Far
یہ صورتِ حال ایک طرف سیکولر آئڈیالوجی کو منسوخ کررہی ہے، اور دوسری طرف وہ ہم کو یہ قرینہ (clue) دے رہی ہے کہ اِس معاملے میں مذہبی آئڈیالوجی زیادہ درست اور مبنی بَرحقیقت ہے۔ مذہبی آئڈیالوجی جو پیغمبروں کے ذریعے معلوم ہوئی، وہ یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین اِس لیے بنایا ہی نہیں گیا کہ یہاںانسان اپنے لیے مادی جنت کی تعمیر کرسکے۔ یہاں کے ناقص اسباب یقینی طور پر کسی مفروضہ مادی جنت کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں۔
اِس معاملے میں درست اورمطابقِ واقعہ بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے تمام اسباب، امتحانی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں جو چیزیں انسان کو ملی ہیں، وہ بطور انعام نہیں ہیں۔ اگریہ چیزیں بطور انعام ہوتیں تو وہ اپنی ذات میں کامل ہوتیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، یہاں کی ہر چیز ناقص ہے اور اِن چیزوں کا ناقص ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہی نظریہ درست ہے کہ یہ چیزیں امتحانی پرچے کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ انسان کو انعام کے طورپر نہیں دی گئیں۔
یہ قرینہ (clue) یہ ثابت کرتا ہے کہ اِس معاملے میں پیغمبرانہ نظریہ ہی صحیح نظریہ ہے، یعنی یہ کہ موجودہ دنیا غیر معیاری دنیا (imperfect world) ہے۔ اِس کے بعد ایک اور دنیا بنے گی جو اِس دنیا کا معیاری ورزن (perfect version) ہوگا۔ موت کے بعد بننے والی اِس معیاری دنیا میں وہ لوگ جگہ پائیں گے جو موجودہ امتحانی دنیا میں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرچکے ہوں۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام سیکولر فلسفی اور مفکر اور سماجی رہنما ہزاروں سال سے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ موجودہ دنیا میں منصفانہ سماج (just society) بنائیں، مگر ساری کوششوں کے باوجود اُنھیں کامیابی نہ ہوسکی۔ برعکس طور پر یہ ہوا کہ ساری دنیا میں انارکی اور کرپشن اور استحصال(exploitation) اور بددیانتی پھیل گئی۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں اِس معاملے میں مزید اضافہ ہوا۔ حتی کہ تمام قرائن کے مطابق، اب یہ ناممکن ہوچکا ہے کہ منصفانہ سوسائٹی کی تعمیر کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ جدید ترقیوں نے لوگوں کے بگاڑ میں صرف اضافہ کیا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کا ضمیر ایک منصفانہ سماج چاہتا ہے۔ یہ ضمیر کبھی ختم نہ ہوسکا۔ یہ ضمیر جس طرح پہلے لوگوں کے اندر موجود تھا، اُسی طرح وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ اب موجودہ حالات میں منصفانہ سماج کا قیام عملاً ناممکن ہوچکا ہے۔ مثلاً موجودہ عدالتی نظام اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ اُس سے اب انصاف کی امید ہی نہیں کی جاسکتی۔ قوانین کی بھر مار کے باوجود صرف بے انصافیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ معاملہ دوبارہ ایک قرینہ (clue) ہے جو پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتا ہے، یعنی یہ کہ مجرموں کو سزا دینا اور سچے انسانوں کو اُن کے کیے کا انعام دینا، موجودہ محدود دنیا میں ممکن ہی نہیں۔ انسانی ضمیر کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک اور دنیا درکار ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں خود خدا ظاہر ہو کر سب کا حساب لے اورانصاف کو قائم کرے۔ یہ صورتِ حال اِس پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک یومُ الحساب (Day of Judgement) آنے والا ہے۔ اُس وقت خدائی طاقت کے ذریعے منصفانہ سماج کا وہ قیام ممکن ہوجائے گا، جو انسانی طاقت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ممکن نہیں ہوا تھا۔
پیغمبرانہ آئڈیالوجی کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دَور ہیں— قبل از موت دورِ حیات، اور بعد از موت دورِ حیات۔ اب یہ آخری طورپر ثابت ہوچکا ہے کہ قبل از موت دورِ حیات اپنی محدودیتوں کی وجہ سے اُس کامل دنیا کی تعمیر کے لیے ناکافی ہے جو انسان کا ضمیر چاہتا ہے۔ یہ مطلوب دنیا بلا شبہ بنے گی، لیکن وہ موت کے بعد کے وسیع تر دورِ حیات ہی میں بن سکتی ہے— یہ مطلوب دنیا ایک زیرِ تعمیر دنیا (world in the making) ہے۔ اب وہ دن زیادہ دور نہیں، جب کہ یہ بننے والی مطلوب دنیا مکمل ہو کر ہمارے سامنے آجائے۔