ایثارِنفس
قرآن کی سورہ الحشر میں اعلیٰ انسانوں کی صفات بتائی گئی ہیں۔ ان اعلیٰ صفات میں سے ایک صفت ایثارِنفس ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:وَيُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَة (59:9)۔ یعنی، ’’ اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر مقد م رکھتے ہیں۔ اگر چہ وہ خود ضرورت مند ہوں‘‘۔یہ آیت اگرچہ انصارِ مدینہ کے ریفرنس میں ہے، مگر اس کا حکم عام ہے۔
ایثارِنفس ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ ایثارِ نفس کا مطلب ہے ، اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا ۔ اپنے حق میں کمی کرکے دوسرے کاحق پورا کرنا۔ یہ صفت ایک فرد کے لیے اعلیٰ انسانیت کامظاہرہ ہے، اور سماجی اعتبار سے وہ سماج کی مجموعی ترقی کا ضامن ہے۔یہی وہ عالی حوصلگی ہے جو کسی گروہ کو تاریخ ساز گروہ بناتی ہے۔
انسانیت کی مجموعی ترقی کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہی صفت ہے۔ جس سماج کے افراد میں یہ مزاج ہو کہ وہ اپنے آپ کو بھلا کردو سرے کی مدد کریں۔ وہ اپنی سیٹ کوخالی کر کے دوسرے کو بیٹھنے کی جگہ دیں۔ وہ دوسرے کی خوبی کا اعتراف کرکے اس کو آگے بڑھائیں تو ایسے سماج میں مجموعی ترقی کا عمل کامیابی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔
جس سماج میں یہ صفت ہو اس میں آپس کی محبت بڑھے گی۔ لوگ ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ سماج کے لوگوں میں حسد اور بغض اور خود غرضی جیسی برائیوں کی جڑکٹ جائے گی ۔ ایسے سماج میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پائیں گے۔ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی ہو گی ۔ ایسا سماج گویا ایک خاندان کی مانند ہو گا جس میں لوگ بھائی بہن کی طرح مل کررہیں گے۔
ایثارِ نفس بظاہر ایک قربانی ہے۔ مگر اسی میں ذاتی فائدہ کا راز بھی چھپا ہوا ہے۔ جو آدمی دوسروں کے ساتھ ایثار کا معاملہ کرے وہ دوسروں کے دل کو جیت لیتا ہے، اور جب دلوں کو جیت لیا جائے تو اس کے بعد کوئی اور چیز جیتنے کے لیے باقی نہیں رہتی۔