خبرنامہ اسلامی مرکز- 277
ث سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی سے ہفتہ وار پروگرام کا سلسلہ جاری ہے جیسا کہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کی حیات میں جاری تھا۔ یہ پروگرام اتوار کے دن ساڑھے دس بجے فیس بک (fb.com/maulanawkhan)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں ڈاکٹر فریدہ خانم اور ڈاکٹر ثانی اثنین خان خطاب کرتے ہیں۔ 5 جون 2022 کو ڈاکٹر ثانی اثنین خان صاحب نے "پیغمبر یوسف کے قصہ کا سبق" کے عنوان سے خطاب کیا۔
ث گڈورڈ بکس، نئی دہلی نے دنیا کی 30 سے زیادہ زبانوں میں تراجم قرآن کے علاوہ بریل ترجمۂ قرآن بھی شائع کیا ہے۔ سی پی ایس دہلی کے ممبرمسٹر محمد عمار نے 7 دسمبر 2021 کو بلائنڈ ریلیف ایسوسی ایشن، نئی دہلی کی لائبریری کے لیے ایک بریل قرآن بطور گفٹ دیا۔ تاکہ وہ لوگ بھی خدا کے پیغام سے باخبر ہوں، جو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
ث دعوت امت مسلمہ کا مشن ہے۔ یہ عمل شعوری منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ شعوری منصوبہ بندی کا مطلب ہے دعوت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا جائے۔اس تعلق سے یہاں ایک تجربہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔21 اکتوبر 2021شہر وانمباڑی( تمل ناڈو) سے ایک صاحب کا کال آیا۔ انھوں نےبتایاکہ علاج کےلیے میرا ایک غیر مسلم ڈاکٹر سے اپوائٹمنٹ ہےاور میری خواہش ہے کہ میں انھیں انگریزی ترجمۂ قرآن دوں۔ اگر آپ کے پاس سعودی عرب کا انگریزی ترجمہ قرآن اویلیبل ہو تو برائے مہربانی مجھے ایک عدد دیجیے۔ یاددہانی کے لیے انھوں نے کئی مرتبہ فون بھی کیا۔ بہت تلاش کے بعد وہ ترجمۂ قرآن مل سکا۔ ویسے سی پی یس انٹرنیشنل کی جانب سے کئی زبانوں میں تراجم قرآن دستیاب ہیں۔مگر ان کے جذبے اور مطالبے کی قدر کرتے ہوئے میں سعودی عرب سے چھپے ہوئے قرآن کی تلاش میں تھا۔ جب مجھے یہ نسخہ مل گیا تو میں نے یہ کیا کہ گڈورڈ بکس سے طبع شدہ ترجمۂ قرآن بھی ساتھ لے گیا ۔ اورسعودی والے ترجمۂ قرآن کے ساتھ میں نے سی پی ایس کے ترجمۂ قرآن کی ایک کاپی بھی ان کو دی۔ وہ بہت خوش ہوئے اورکہا کہ سی پی ایس کا ترجمۂ قرآن ہینڈی اوربہت خوبصورت ہے۔ کیا اس کی مزید کاپیاںمجھے مل سکتی ہیں۔میں نے اس ترجمۂ قرآن کی مزید کاپیاں اور وهاٹ از اسلام نامی کتاب ان کو دے دی۔
اس واقعہ سے میری سمجھ میں آیا کہ دعوت کی شعوری منصوبہ بندی کا مطلب کیا ہے۔ یعنی ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں، علاج ہو یا تجارت یاکوئی اور معاملہ، غیرمسلموں سے ہمارا تعلق لازمی طور پر قائم ہوتاہے۔ اگر پیشگی طور پر ہم کچھ پرنٹڈ دعوتی لٹریچرمثلاً ترجمہ قرآن ، وغیرہ اپنے پاس رکھ لیں تو ہر مسلم اپنا دعوتی رول ادا کرسکتا ہے۔ کیوں کہ مدعو تک خدا کا پیغام ، یعنی قرآن پہنچانا داعی کی ذمہ داری ہے۔مگر خدا کے پیغام کو ماننا یا اس کا انکار کرنا مدعو کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ کے پاس جو بھی ترجمۂ قرآن میسر ہو اس کو دینے کی کوشش کریں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ مدعو کی قابلِ فہم زبان میں ہو۔ اگر امت مسلمہ اس دور میں صرف اتنا کام کردے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تمام کرنے کے مترادف ہوگا (مولانا اقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو)۔
ث السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، طارق بدر صاحب! اللہ تعالی آپ کو ڈھیر ساری خوشیاں نصیب کرے۔ کیوںکہ آپ مولانا وحید الدین صاحب کے مشن کو عام کرنے میں سرگرم ہیں۔ اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں۔ اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ہماری فلاح ہے۔ جس طرح مولانا صاحب کو پڑھتے ہوئے میرے ایمان کو تقویت ملتی ہے، کسی اور عالم دین کو پڑھنے سے اس طر ح مجھے ایمانی تقویت نہیں مل پاتی ہے۔ میں مولانا صاحب کی فکر سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں مولانا کی تعلیمات کو عام کروں۔ آج کے فتنہ وفساد والے دور میں میں مستقل طور پر اپنے آپ کو ان کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے لگانا چاہتا ہوں ۔ اس کے لیے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے مولانا کی بنیادی فکر رکھنے والی تصانیف بھیج دیں(سجاد حمزہ، بونیر،کے پی کے)۔
ث الرسالہ ( اکتوبر - دسمبر 2021) مطالعہ کرنے کا موقع ملا ۔اس میں ایک مضمون ہے ’’الحاد یا ڈی کنڈیشننگ‘‘ ۔ یہ ایک مبنی بر حقیقت اور حکمت سے بھر پور مضمون ہے۔ اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اس روشنی میں اپنے کچھ دعوتی تجربات شیئر کر رہا ہوں۔ گزشتہ رمضان میں قرآن کی کافی تعداد میں ریکوسٹ موصول ہوئیں۔ ناگپور ٹیم نے کچھ قرآن بذریعہ پوسٹ بھیج دیےاور بہت سے قرآن میں نے ساجد احمد خان صاحب کے ساتھ مل کر ذاتی طور پر پہنچائے۔ قرآن کی ریکوسٹ زیادہ تر سیکولر تعلیم حاصل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی تھیں۔ اس میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان نوجوانوں میں قرآن کو سمجھنے کی چاہ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے انہوں نے قابلِ فہم زبان میں قرآن کا مطالبہ کیا۔ بعض لڑکیوں نے تو یہاں تک کہا کہ ہماری تعلیم انگریزی زبان میں ہوئی ہے۔ قرآن کے ترجمے زیادہ تر اردو زبان میں ہیں، اس لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے ہم نے اردو زبان سیکھی۔ اس تجربے سے مولانا صاحب کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’’ ماڈرن ایجوکیشن کے ادارے اپنی حقیقت کے اعتبار سے ’ قتل گاہ‘ نہیں ہیں، بلکہ وہ تطہیر ذہن (ڈی کنڈیشننگ ) کے ادارے ہیں۔ ذہنی تطہیر کے اس عمل کی بنا پر ایسے لوگ اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ کسی بات کو زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ سکیں‘‘۔ بعض نوجوانوں سے گفتگو کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ آبائی طور پر ملا ہوا مذہب شاید ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کر پا رہا ہے اور وہ اپنے مائنڈ کی ری انجینئرنگ کرکے اسلام کو ری ڈسکور کرنا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بقول مولانا صاحب ’’ان کے گھر اور ان کے ماحول نے ان کے اندر اپنے آبائی مذہب کے لیے جو عقیدت پیدا کی تھی، اس کو جدید تعلیم نے ختم کر دیا، گویا کہ ان کی فطرت کے اوپر جو روایتی پردہ پڑگیا تھا، وہ ہٹ گیا اور وہ اپنی اصلی فطرت کے قریب آگئے‘‘۔ چنانچہ ناگپور ٹیم نےیہ پلان بنایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوںتک سی پی ایس مشن کو پہنچایا جائے۔ قرآن کے لیے ریکوسٹ کرنے والے ان نوجوانوں کا ایک واٹس اپ گروپ بنایا گیا ہے جس میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کے آڈیوز، وڈیوز اور مضامین شیئر کیے جاتے ہیں، جس سے ان کو مزید فائدہ حاصل ہوتا ہے (محمد عرفان رشیدی، کامٹی، ناگپور)۔
ث 1 نومبر 2021 سی پی ایس امریکا کے ایک ممبر نے ہارورڈ ڈیونٹی اسکول کیمبرج، بوسٹن کے سامنےتقسیم قرآن کا ایک اسٹال لگایا۔ کافی لوگ اسٹال پر آئے اور ترجمۂ قرآن اور اسلام کے تعارف پر مبنی لٹریچر حاصل کیا۔ایک اکیڈمک اسٹاف نے بتایا کہ وہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کو پہلے سے جانتے ہیں، اور ان کی کتابیں پڑھ چکے ہیں (خواجہ کلیم الدین، امریکا) ۔
ث بتاريخ 5دسمبر سے 10 دسمبر 2021 تک آندھرا پردیش کے چند علاقوں ،بھیماورم، نڈدول، راجمندری، تانوکو اور وشاکھاپٹنم کادورہ ہوا، اورعلماحضرات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان تمام حضرات کے ساتھ سی پی ایس مشن کے تعلق سے گفتگو ہوئی ۔ٹرین میں ایک خوشگوار تجربہ پیش آیا۔ اس بنا پرہم سفر غیر مسلموں کے درمیان آسانی سے دعوتی کام کا موقع ملا۔ ہوا یہ کہ ٹرین میں میرے پڑوس کی سیٹ پر کچھ غیر مسلم مسافر تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ میری سیٹ وہ لے لیں، اور مجھے کوئی اور سیٹ دیں۔ مگر مجھے دیکھ کر وہ کہنے میں جھجک رہے تھے۔ میں نے ان کے ارادہ کو سمجھ کر فوراً ان سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں آپ جیسا چاہتے ہیں، وہ میں کردیتا ہوں ۔میں آپ کے لیے نوپرابلم پڑوسی بن کر رہوں گا۔یہ سن کر وہ بہت زیادہ خوش ہوئے، اور تمام لوگ میرے دوست بن گئے۔ انھوں خوشی خوشی میری باتیں سنی، اورترجمۂ قرآن کریم ، اور دیگردعوتی لٹریچر قبول کیا۔وشاکھاپٹنم میں سی پی ایس مشن کے ممبران عبد المبین صاحب، نورمحمد صاحب، ڈاکٹر یاسین اور عبدالشكور صاحب ان تمام سے ملاقات ہوئی۔ سب نے اپنے دعوتی تجربات بتائے اور خدا کے پیغام، قرآن کو ساری انسانیت تک پہنچانے کا ازسر نوعہد کیا۔ان حضرات سے جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی کہ دعوت میں استقامت کی ایک ہی شرط ہے۔ یعنی ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ مدعو تک قرآن کا پیغام پہنچایا جائے اور ان کی ہدایت کے لیےاللہ سے دعا کرتے رہیں۔اس حقیقت کو ہم اصولی طور پر اچھی طرح جان لیں۔ اگراس سے زیادہ کوئی نتیجہ ہم چاہتے ہوں تو ہمیں مایوس ہونا پڑے گا ۔ کیوں کہ قرآن (28:56) کے مطابق، دعوت وتبلیغ ہماری ذمہ داری ہے ، مگرہدایت دینا اللہ کا معاملہ ہے۔ (مولانا اقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو)۔
ث 25 دسمبر 2021 کوکرسمس کے موقع پر گلمرگ میں سیاحوں کی کافی بھیڑ تھی۔ اس مناسبت سے سی پی ایس کشمیر کےتین ممبر ان حمید اللہ حمید صاحب، اعجاز احمد صاحب، اور مختار احمد صاحب گلمرگ گئے اور سیاحوں کے درمیان تراجم قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچرتقسیم کیا ۔کافی اچھا رسپانس ملا ۔ گلمرگ کلب میں ایک ہفتہ کا Christmas and New year festival رکھا گیا تھا ،جس میں کثیر تعداد میں ممتاز شخصیات شریک ہوئے تھے۔ ان سب کو دعوتی لٹریچر پیش کیا گیا جو انہوں نےانتہائی خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
ث سی پی ایس (سہارنپور) کی ایک ٹیم نے ڈاکٹر محمد اسلم خان کی قیادت میں 31 مارچ 2022 کو نگینہ، دھام پور اور دیوبند کا دورہ کیا۔ دھام پور میں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ مثلاً جناب ماہتاب صاحب (ممبر سی پی ایس دھام پور)، ڈاکٹر سکندر، ڈاکٹر ورما، ڈاکٹر سمن، ڈاکٹر آصف، مسٹر ارشاد ملتانی، مسٹر شاہنواز زیدی، ایڈووکیٹ نوید، اور مسٹر جاوید، وغیرہ۔ ان تمام لوگوں کے ساتھ سی پی ایس مشن کو لے کر گفتگو ہوئی، اور ان کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ پھر وہاں سے دارالعلوم دیوبند میں جانا ہوا۔ وہاں کی لائبریری میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابوں کا سٹ دیا گیا۔ اس کے علاوہ دیوبند میں موجود دیگر علما کرام سے ملاقاتیں ہوئیں۔