مشقتوں کے درمیان
قرآن کی سورہ البلد میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ اس قانون کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی ، خواہ وہ بظاہر اچھے ہوں یا برے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے :’’ ہم نے انسان کو مشقت میں پیداکیاہے‘‘(90:4)۔
قرآن کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں انسان کے ساتھ بار بار پرمشقت حالات پیش آئیں، اس کو مختلف قسم کی مشکلات سے گزرنا پڑے۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ کسی بھی تدبیر کے ذریعہ اس قانون کو بدلانہیں جا سکتا۔ ہر انسان کو لازماًاس امتحان سے گزرنا ہے۔ اس دنیا میں مشقتوں سے فرار ممکن نہیں۔
یہ ایک عام انسانی تجربہ ہے کہ زندگی مشقتوں سے خالی نہیں ۔ علمی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوا ہے ۔ روسی ماہر نفسیات نمیلو(Anton Vitalievich Nemilov, 1879-1942)نے لکھا ہے — یہ ناقابل تصور ہے کہ انسانی زندگی المیہ سے خالی ہو :
Human life is unthinkable without tragedies, without the tragic element. The more highly developed and nearer to perfection man is, the greater are the possibilities for tragic conflicts. (Biological Tragedy of Woman, p. 13-14)
مشقت جب خود فطرت کے قانون کے مطابق ، انسا نی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے تو ہمیں اس کو مان کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ اس کا انکار کر کے ۔ زندگی کو اس نہج پر کیوں بنا یاگیا۔ یہ خو دانسان کے فائدے کے لیے ہے۔ مشقتیں انسان کو انسان بناتی ہیں۔ جو انسان مشقتوں کاتجربہ نہ کرے وہ زندگی کی گہری حقیقتوں سے بے خبر رہے گا۔ مشقت ایک کورس ہے جو آدمی کو گہری حقیقتوں سے واقف کراتا ہے۔ وہ آدمی کے چھپے ہوئے امکانات کو ظہور میں لاتا ہے۔ وہ کسی آدمی کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ مشقت زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کے ہم معنی ہے۔ مشقت ہر قسم کی ترقیوں کازینہ ہے، جہاں مشقت نہیں وہاں ترقی بھی نہیں۔