اللہ کی مدد

فطرت کا ایک قانون قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (47:7)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔

اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:احْفَظِ ‌اللهَ يَحْفَظْك ‌احْفَظِ ‌اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَك (مسند احمد، حدیث نمبر 2669)۔ یعنی اللہ کی حمایت کرو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا، اللہ کی حمایت کرو، تم اس کو اپنے سامنے پاؤگے۔ وفی روایۃ:احْفَظِ اللهَ ‌يُكْرَمْ ‌مَا ‌بِك (الاِبانة لا بن بطة، حدیث نمبر 1504)۔یعنی، اللہ کی حمایت کرو، اللہ تم کو عزت عطا کرے گا۔

اللہ کی مدد یا اللہ کی حمایت کا مطلب ہے، اللہ کے مشن کو اپنا مشن بنانا، اور اپنی جان و مال کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر خدائی مشن کی حفاظت و اشاعت کرنا۔ اصل یہ ہے کہ واقعات کو ظہور میں لانے والا خدا ہے۔ مگر وہ واقعات کو اسباب کے پردہ میں ظہور میں لاتا ہے۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ باطل کا زور ختم ہو اور حق کو دنیا میں استحکام حاصل ہو۔ مگر اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کچھ ایسے افراد درکار ہیں جو اس خدائی عمل کا انسانی پردہ (human face) بنیں۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کو یہاں خدا کی نصرت کرنا کہا گیا ہے۔

مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد آتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے دین کی مدد کے معاملے میں خدا کی مدد کی حقیقت کیا ہے۔ غالباً 1948 کا واقعہ ہے۔ اس کو میں نے اپنی کتاب "قرآن کا مطلوب انسان" میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے:ضلع اعظم گڑھ کے رُوواں نامی بستی کے باہر ایک باغ کے پاس کھلے میدان میں جماعت اسلامی کا ضلعی ماہانہ اجتماع ہورہا تھا۔ ظہر کاوقت تھا۔ اذان ہوچکی تھی، ایک بڑے درخت کے نیچے فرش بچھا ہوا تھا، جہاں کچھ لوگ سنتیں پڑھ رہے تھے، اور کچھ لوگ نماز کے وقت کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں ایک حادثہ پیش آیا۔ اجتماع کے قریب ایک بڑا سا گڑھا تھا، جس کے عین کنارے سے راستہ گزرتا تھا۔ اس راستہ پر ایک بیل گاڑی جارہی تھی۔ جیسے وہ گڑھے کے کنارے پہنچی، اس کا ایک پہیہ پھسل گیا، اور پوری گاڑی کروٹ ہوکر گڑھے میں اس طرح گرگئی کہ ایک پہیہ اوپر کھڑا تھا، اور دوسرا نیچے دبا ہوا تھا۔ جیسے ہی ہم میں سے کچھ لوگوں کی نظر اس پر پڑی ، وہ اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑے۔ گاڑی سامان سے لدی ہوئی تھی۔ بیل بھی گاڑی میں پھنسے ہوئے تھے۔ بظاہر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ چند لوگ اس مسئلہ کو حل کیسے کرسکیں گے۔ مگر یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا، بلکہ فی الفور اقدام کرنے کا وقت تھا۔ مدد کے لیے آنے والے فوراً بچاؤ کےکام میں لگ گئے۔ کچھ نے نیچے سے زور لگایا، اور کچھ نے اوپر سے پکڑ کر گاڑی کو اٹھانا شروع کیا۔ میں ان لوگوں کے ساتھ تھا، جو گاڑی کو نیچے سے اٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔

اس کے بعد ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ یکایک ہم نے دیکھا کہ گاڑی اٹھا کر اوپر رکھ دی گئی ہے۔ چند آدمی جو اس کام میں لگے تھے، ان سب کا متفقہ احساس تھا کہ گاڑی ہم نے نہیں اٹھائی، بلکہ وہ تو کسی اور نے اٹھا کر رکھ دی ہے۔ نیچے ہاتھ دینے والوں کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اوپر سے کوئی اس کو کھینچے چلاجارہا ہے، اور جو لوگ اوپر تھے ان کو ایسا محسوس ہورہا تھا گویا گاڑی نیچے سے اٹھتی چلی آرہی ہے۔

یہ واقعہ واضح (illustrate) کرتاہے کہ خدا کی مدد کا مطلب کیا ہے۔یہ میری زندگی کا ایک حقیقی تجربہ تھا۔ اس سے میں نے دریافت کیا کہ خدا کی نصرت کیسے آتی ہے۔اصل یہ ہے کہ دنیا میں خدا کی جو مدد آتی ہے، وہ ہمیشہ اسباب کے پردے میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی استطاعت کے مطابق پوری تدبیر کرنی پڑتی ہے۔ یعنی کام کو انجام دینے والےبظاہرہیومن فیس (human face) ہوتے ہیں، لیکن باعتبار حقیقت وہ منصوبہ اصلاً فرشتوں کے ذریعے انجام پاتا ہے ۔کیوں کہ یہ فرشتے ہیں، جواللہ کے حکم سے ساری دنیا کا نظام چلارہے ہیں۔

 اب اگر کچھ انسان زمانی مواقع کے اعتبار سےخدا کے منصوبہ کو دریافت کریں، اور اس کے لیےجدوجہد کریں تو عین اسی وقت یہ ہوگا کہ خدا کے فرشتےخصوصی طور پروہاں آکراس انسان کی مدد کریں گے۔یہی مطلب ہےانسان کی جانب سے خدا کی نصرت کا، اور خدا کی جانب سے انسان کی مدد کا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom