ماننے سے پہلے تحقیق
قرآن کی سورہ الحجرات میں اجتماعی زندگی کے بارے میں ایک اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ کسی بات کو صرف سن کر نہ مان لیا جائے۔ مذکورہ آیت کاترجمہ یہ ہے:’’ اے ایمان والو، اگرکوئی فاسق تمہارے پاس خبرلائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیاکرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کونادانی سے کوئی نقصان پہنچادو، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتا نا پڑے‘‘(49:6)۔
لوگ جب مل جل کر رہتے ہیں تو اجتماعی زندگی کے نتیجہ میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کی طرف سے بار بار خبریں پہنچتی ہیں۔ ان خبروں پر سننے والے کاردعمل کیا ہونا چاہیے اسی کی با بت ایک اصول مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ سننے والا جب کسی بات کو سنے تو ماننے سے پہلے اس کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بغیر صرف سننے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔
تجربہ بتا تا ہے کہ اکثرایک کی بات دوسرے تک صحیح شکل میں نہیں پہنچتی ۔ بات کو پہنچانے والا درمیانی شخص اکثربات کو بدل دیتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر بات کاایک بیک گرائونڈیا موقع ومحل ہوتا ہے۔ مگر بات کو نقل کرنے والا اکثرایسا کرتا ہے کہ وہ بیک گرائونڈ کو بتائے بغیر مجردشکل میں بات کو بیان کر دیتا ہے۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے کچھ ہوتی ہے اور سننے والے تک پہنچ کر وہ کچھ اور ہوجاتی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر سننے والا آدمی غلط رائے قائم کرتا ہے اور غلط اقدام کر ڈالتا ہے جس کانتیجہ آخر کار اس صورت میں نکلتا ہے کہ آدمی اپنے کیے پر شرمندہ ہوتا ہے، حالاں کہ اب وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ ہر سماج میں پیش آتا ہے۔ اس کاحل صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر یہ مزاج بنائے کہ وہ صرف سن کر کسی بات کو نہ مان لے۔ ماننے سے پہلے وہ ضروری تحقیق کرے۔ اور اگر وہ تحقیق نہیں کر سکتا تو ایسی حالت میں اس کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سنی ہوئی بات کو بھلا دے۔ وہ اس پر نہ کوئی رائے قائم کرے اور نہ اس کی بنیاد پر کسی اقدام کامنصوبہ بنائے۔