مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
0001
عمر بن الخطاب رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: اعمال كا دار ومدار نيتوں پر هے۔ اور آدمي كے لیے وهي هے جس كي اس نے نيت كي۔ پس جس آدمي كي هجرت الله اور اس كے رسول كي طرف هو تو اس كي هجرت الله اور اس كے رسول كي طرف هے۔ اور جس آدمي كي هجرت دنيا حاصل كرنے كے لیے هو يا كسي عورت سے نكاح كرنے كے لیے هو تو اس كي هجرت اسي چيز كے لیے هے جس كي طرف اس نے هجرت كي۔ (متفق عليه)
هر عمل كا ايك ظاهري نقشه (form) هوتاهے۔ مگر كوئي عمل صرف اپنے نقشه يا خارجي صورت كے اعتبار سے مطلوب نهيں هوتا۔ بلكه هر عمل كي قيمت اس داخلي كيفيت يا اس قلبي محرك كے اعتبار سے هوتي هے جو عمل كے وقت آدمي كے اندر پايا جائے۔ مثلاً هجرت يا ترك وطن اگر كسي دنيوي مقصد كے لیے هو تو آدمي كو صرف اس كا مطلوب دنيوي مقصد حاصل هوگا۔ اور اگر اس كي هجرت كسي ديني مقصد، مثلاً حق كي اشاعت كے لیے هو تو ايسي صورت ميں آدمي كو حق كي اشاعت كا انعام ديا جائے گا۔
0002
عمربن الخطاب رضي الله عنه كهتےهيں : ايك دن جب كه هم رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس تھے، اچانك ايك آدمي همارے سامنے آيا، بهت سفيد كپڑوں والا اور بهت سياه بالوں والا۔ اس كے اوپر سفر كا كوئي نشان دكھائي نهيں ديتا تھا۔ اور هم ميں سے كوئي شخص اس كو پهچانتا نه تھا۔ وه رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس بيٹھ گيا۔ اس نے اپنے گھٹنے رسول الله صلي الله عليه وسلم كے گھٹنے سے ملادیے۔ اور اپنے دونوں هاتھ آپ كے دونوں زانو پر ركھ دیے۔ اور كها كه اے محمد، مجھے اسلام كے بارےميں بتائيے۔ آپ نے فرمايا: اسلام يه هے كه تم گواهي دو كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه محمد الله كے رسول هيں۔ اور نماز قائم كرو۔ اور زكوة ادا كرو۔ اور رمضان كے روزے ركھو۔ اور بيت الله كا حج كرو اگر اس كي استطاعت ركھتے هو۔ آنے والے آدمي نے كها كه آپ نے درست فرمايا۔ هم كو اس آدمي پر تعجب هوا كه وه پوچھتا بھي هے اور تصديق بھي كرتا هے۔ آنے والے نے كها كه مجھے ايمان كے بارے ميں بتائيے۔ آپ نے فرمايا: يه كه تم ايمان ركھو الله پر اور فرشتوں پر اورالله كي كتابوں پر اور اس كے رسولوں پر اور آخرت كے دن پر اور تم ايمان ركھو تقدير پر ، اس کے خیر پر اور اس کے شر پر۔ آنے والے نے كها كه آپ نے درست فرمايا۔ آنے والے نے كها كه اب مجھے احسان كے بارے ميں بتائيے۔ آپ نے فرمايا: يه كه تم الله كي عبادت اس طرح كرو گويا كه تم اس كو ديكھ رهے ہو، پس اگر تم اس كو نهيں ديكھ رهے هو تو وه تم كو ديكھ رها هے۔ آنے والے نے كها : اب مجھے قيامت كے بارے ميں بتائيے۔ آپ نے فرمايا كه پوچھا جانے والا اس معامله ميں پوچھنے والے سے زياده باخبر نهيں۔ آنے والے نے كهاكه پھر اس كي نشانيوں كے بارے ميں بتائيے۔ آپ نے فرمايا، يه كه لونڈي اپنے آقا كو جنم دے۔ اور تم ديكھو كه ننگے پاؤں، ننگے بدن والے مفلس، بكريوں كو چرانے والے، عمارتوں پر فخر كررهے هيں۔ راوي كهتے هيں كه پھر آنے والا چلا گيا۔ ميں كچھ دير وهاں ٹھهرا۔ پھر آپ نے فرمايا كه اے عمر، كيا تم جانتے هو كه يه آنے والا آدمي كون تھا۔ ميں نے كها كه الله اور اس كے رسول زياده جانتے هيں۔ آپ نے فرمايا كه يه جبريل تھے۔ وه آئے تاكه تم كو تمهارا دين سكھائيں (مسلم)۔
يه حديث كسي تشريح كے بغير واضح هے۔ اس ميں احسان كي بابت جو كچھ كها گيا هے اس كا مطلب يه هے كه اعليٰ عبادت وه هے جب كه عبادت كے ساتھ گهري معرفت شامل هو جائے۔ عابد كے اندر خدا كي موجودگي (presence) كا اتنا شديد احساس هو گويا كه وه اس كو براه راست ديكھ رها هے۔ اگر كسي كے اندر يه اعلي معرفت موجود نه هو تو دوسرے درجه ميں یه هونا چاهیے كه اس كو بالواسطه معرفت كا درجه حاصل هو۔ اگر قلبي احساس كے اعتبار سے اس كو خدا كي قربت حاصل نهیں هے تو وه سوچ كے اعتبار سے اس كا تصور اپنے ذهن ميں قائم كرے۔
اس حدیث میں اللہ رب العالمین کی موجودگی (presence of God) کے دو درجے بتائے گئے ہیں۔ ایک ہے، کیفیت کے درجے میں اللہ رب العالمین کی معرفت، اور دوسرا ہے، علم کے درجے میں یہ سوچ پیدا ہونا کہ میں اگر چہ اللہ کا مشاہدہ نہیں کرسکتا، لیکن اللہ خود اپنے مقام سے مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ وہ مجھ سے کامل طور پر باخبر ہے۔
اسی طرح قیامت کا معاملہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اس حدیث میں قیامت کی ابتدائی نشانی بتایا گیا ہے۔ وہ علامتیں اگر ظاہر ہوجائیں تو انسان کو کم سے کم یہ کرنا ہے کہ وہ قیامت کے معاملے میں چوکنا ہوجائے۔ وہ مزید اضافے کے ساتھ قیامت کے بارے میں سوچنے لگے۔
0003
مذكوره حديث (0002)کو ابوهريره رضي الله عنه نے كسي قدر اختلاف كے ساتھ روايت كيا هے۔ اس ميں هے كه "اور جب تم ديكھو ننگے پاؤں، ننگے بدن، بهرے اور گونگے زمين كے بادشاه هيں۔ قيامت ان پانچ چيزوں ميں سے هے جن كے بارے ميں خدا كے سوااور كوئي نهيں جانتا۔ پھر آپ نے قرآن كي آيت (31:34)تلاوت فرمائي: بیشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحم میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ جاننے والا، باخبر ہے(متفق عليه) ۔
اس روايت ميں قيامت كي پيشگي نشانياں بتائي گئي هيں۔ لوگوں كا شاندار عمارتيں بناكر ان پر فخر كرنا اور عوام كا بادشاه بن جانا۔ يه دونوں نشانياں دراصل صنعتي دور كي پيشين گوئي هيں۔ جديد صنعتي ترقيوں كے بعد دنيا ميں ايك نيا انقلاب آيا هے جس كو اقتصادي انفجار (economic explosion) كهاجاسكتا هے۔ اس انقلاب نے هر ايك كے لیے يه ممكن بنا ديا هے كه وه اپنے لیے پر فخر عمارتيں كھڑي كرسكے۔ اسي طرح جديد انقلابات كے نتيجه ميں وه چيز ظهور ميں آئي هے جس كو ڈيموكريسي كهاجاتا هے۔ اس نے پهلي بار يه كيا كه عوام كو حاكميت كا حق دے ديا، جب كه اس سے پهلے وه شاهي خاندان كا حق سمجھا جاتا تھا۔
0004
عبدالله بن عمر رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: اسلام كي بنياد پانچ چيزوں پر هے۔ يه گواهي دينا كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں۔ اور يه كه محمد الله كے بندے اور اس كے رسول هيں۔ اور نماز قائم كرنا۔ اور زكاة ادا كرنا۔ اور حج كرنا۔ اور رمضان كے روزے ركھنا (متفق عليه)
اسلام كے پانچ اركان جو حديث ميں بتائے گئے هيں، ان ميں سے هر ايك كا ايك ظاهري فارم (form)هے۔ شهادت كي ظاهري صورت زبان سے كلمه كے الفاظ كي ادائيگي هے۔ اسي طرح نماز اور زكاة اور حج اور روزه كي ظاهري صورتيں هيں جو كه معلوم هيں۔ اسي كے ساتھ ان ميں سے هر ايك كي ايك اسپرٹ يا داخلي كيفيت هے۔ كلمه كي داخلي حقيقت يه هے كه آدمي كو شعوري دريافت كے درجه ميں الله كي وحدانيت اور محمد صلى الله عليه وسلم كي پيغمبري كي معرفت حاصل هوجائے۔ اسي طرح نماز كي حقيقت عجز اور خشوع هے۔ زكاة كي حقيقت دوسرے انسانوں كے حق میں نفع بخشی هے۔ حج كي حقيقت سارے اهل ايمان كا ايك فكري مركز سے جڑ جانا هے۔ روزه كي حقيقت صبر هے۔ يه پانچ چيزيں گويا پانچ روحاني قدريں (spiritual values)هيں۔ انهيں پانچ خصوصيات كے مجموعے سے وه زندگي بنتي هے جس كو اسلامي زندگي كها جاتا هے۔
0005
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ايمان كي 70 سے زياده شاخيں هيں۔ ان ميں سے اعليٰ چيز يه كهنا هے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور سب سے ادنیٰ يه هے كه آدمي راستے كي تكليف ده چيز هٹا دے اور حيا بھي ايمان كي ايك شاخ هے۔ (متفق عليه)
ايك آدمي كو جب ايمان كي معرفت حاصل هوتی هے تو اس كي زندگي كے هر بڑے اور چھوٹے شعبه ميں اس كا اثر ظاهر هونے لگتا هے۔ الله كي نسبت سےاس كا اظهار اس طرح هوتا هے كه اس كا سينه الله كي صفاتِ كمال كے احساس سے بھر جاتا هے۔ انسان كے لیے اس كا خير خواهي كا جذبه يهاں تك پهنچتا هے كه وه نامعلوم راه گيروں كي راه كي ركاوٹوں كو بھي دور كرنے لگتا هے۔ اس كي حساسيت اتني زياده بڑھ جاتي هے كه وه اپنی غلطي پر شرمنده هو اور صرف اس وقت مطمئن هو جب كه وه اپني غلطي كي تلافي كرلے۔
0006
عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: مسلم وه هے جس كي زبان سے اور جس كے هاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ هيں۔ اور مهاجر (وطن چھوڑنے والا) وه هے جو اس چيز كو چھوڑ دے جس سے الله نے منع فرمايا هے (البخاري) ۔ اور صحيح مسلم كي روايت ميں يه هے كه ايك آدمي نے رسول الله صلي الله عليه وسلم سے سوال كيا كه مسلمانوں ميں كون بهتر هے۔ آپ نے فرمايا كه وه جس كي زبان اور جس كے هاتھ سے مسلمان محفوظ رهيں (مسلم)۔
ايك شخص جب سنجيده طور پر اور شعوري فيصله كے ساتھ اسلام كو اختيار كرتا هےتو اس كے لازمي نتيجه كے طورپر اس كي زندگي بدل جاتي هے۔ اب وه ايك با اصول انسان بن جاتاهے۔ وه اپنے آپ كو خدا كے ماتحت سمجھنے لگتا هے، نه كه اس سے آزاد۔ يه تبديلي اس كو مجبور كرتي هے كه وه اپني زبان اور اپنے هاتھ كا استعمال ذمه دارانه طورپر كرے۔ اپني زبان سے دوسروں كو دكھ پهنچانا يا اپني طاقت كا بے جا استعمال كرنا اس كو ايسا معلوم هونے لگتا هے جيسے كه يه دوسروں كے خلاف اقدام نهيں هے بلكه خود اپنے خلاف اقدام هے۔ كيوں كه اس كو يقين هوتا هے كه ايسا هر فعل اس كو خدا كي پكڑ كا مستحق بنا دےگا۔
هجرت محض ايك مقام كو چھوڑ كر دوسرے مقام پر جانے كا نام نهيں هے بلكه وه اپنی حقیقت کے اعتبار سے غير مطلوب روش كو چھوڑ كر مطلوب روش اختيار كرنے كا نام هے۔ هجرت كا انعام اسي شخص كو ملے گا جو هر اس چيز كو چھوڑ دے جس سے خدا نے منع فرمايا هے۔
0007
انس رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم ميں سے كوئي شخص اس وقت تك (مکمل)ايمان والا نهيں جب تك اس كا يه حال نه هوجائے كه ميں اس كے لیے اس كے باپ اور اس كي اولاد اور تمام لوگوں سے زياده محبوب هوجاؤں (متفق عليه)۔
ايمان كا يه فطري نتيجه هے كه آدمي كو پيغمبرخدا صلى الله عليه وسلم سے محبت هوجائے ۔ اس كي وجه يه هے كه ايمان ايك عظيم نعمت هے جو كسي آدمي كو گمراهي كي تاريكي سےنكال كر هدايت كي روشني ميں لاتا هے۔ جو اس كو جهنم كے راستوں سے هٹا كر جنت كے راستوں پر گامزن كرتا هے۔ هدايت كي يه نعمت كسي آدمي كو براهِ راست آسمان سے نهيں ملتي بلكه پيغمبر خدا كے ذریعہ سے ملتي هے۔ يهي وجه هے كه هرسچا مومن يه محسوس كرتا هے كه خدا کےپيغمبر كا اس كے اوپر عظيم ترين احسان هے۔ يه احساس اس كو مجبور كرتا هے كه وه خدا كے بعد سب سے زياده اس كے رسول سے محبت كرے۔ اس كے سينه ميں پيغمبر خدا كي محبت كا لازوال چشمه جاري هوجائے۔
0008
انس رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تين چيزيں جس آدمي كے اندر هوںوه ايمان كي لذت كو پالے گا۔ جس كے لیے الله اور رسول تمام دوسري چيزوں سے زياده محبوب هو جائيں۔ جو كسي بندے سے صرف الله كے لیے محبت كرے۔ جو كفر كي طرف دوباره لوٹنے كو اتنا هي ناپسند كرے جتنا كه وه آگ ميں ڈالے جانے كو ناپسند كرتا هے، جب كه الله نے اس كو اس سے بچا ليا (متفق عليه)۔
ايمان يه هے كه آدمي كو اس سچائي كي معرفت هوجائے كه اس دنيا ميں خدا كا انكار سب سے بڑي محرومي هے، اور خدا كا اقرار سب سے بڑي طاقت۔ ايسا ايمان جب كسي انسان کو دریافت کے درجہ میں حاصل ہوتا هے تو وہ ایک مختلف انسان بن جاتا هے۔ اس كے لیے سب سے زياده محبوب خدا و رسول بن جاتے هيں۔ اور اس كے لیے سب سے ناپسندیدہ چيز يه هوجاتي هے كه وه دوباره سچائی سے محروم ہو کر اس صورتِ حال سے دوچار ہوجائے جس میں وہ پہلے مبتلا تھا۔ اس احساس كي خارجي علامتوں ميں سے ايك علامت يه هے كه انسانوں سے اس كي محبت اور خیرخواہی تمام تر اسي ايماني محبت كے تابع هوجاتي هے۔
0009
عباس بن عبد المطلب رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: اس شخص نے ايمان كا مزه چكھا جو الله كو اپنا رب بنانے پر راضي هوگيا۔ اور اسلام كو اپنا دين بنانے پر اور محمد كو اپنا رسول بنانے پر (مسلم) ۔انسان پيدائشي طورپر سچائي كا متلاشي هے۔ كسي انسان كي تلاش جب اس كو ايمان تك پهنچاتي هے تو يه واقعه اس كے لیے سب سے بڑي طلب كو پالينے كے هم معني هوتا هے۔ وه خدا كو اور خدا كے رسول كو اور خدا كے دين كو اپنے دل كي گهرائيوں ميں اس طرح اتار ليتا هے جيسے كه اس كو كوئي بے حد لذيذ چيز مل گئي هو۔
0010
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: اس ذات كي قسم جس كے قبضے ميں ميري جان هے۔ كوئي بھي يهودي يا نصراني جو ميرے پيغام كو سنے پھر وه مرجائے اور وه اس پر ايمان نه لايا هو جس كو دے كر مجھے بھيجا گيا هے تو وه آگ والوں ميں سے هوگا۔ (مسلم)
پيغمبر اسلام كے بعد اب كسي كے لیے نجات كا واحد ذريعه يه هے كه وه آپ پر ايمان لائے ا ور آپ كي بتائي هوئي تعليم پر عمل كرے۔ اب پچھلےمذاهب کی آسماني كتابيں صرف گزري هوئي تاريخ كا حصه هيں، نه كه خود انسانوں كے لیے خدا كے دين كا ماخذ۔ كيوں كه پچھلے نبيوں كي تعليمات اب صرف محرف (distorted )صورت ميں باقي هيں، جب كه پيغمبر اسلام كا لايا هوا دين هر قسم كي تحريف سے مكمل طورپر پاك هے۔ دين خداوندي كےغير محرف ايڈيشن كي موجودگي ميں اس كا محرف ايڈيشن اپنے آپ غير معتبر هوجاتا هے۔
0011
ابو موسي اشعري رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تين قسم كے لوگ هيں جن كے لیے دوهر اجر هے۔ اهل كتاب ميں سے وه شخص جو اپنے نبي پر ايمان ركھتا تھا پھر وه محمد پر ايمان لايا۔ اور وه مملوك غلام جو الله كا حق ادا كرے اور اسي كے ساتھ اپنے آقاؤں كا بھي۔ اور وه آدمي جس كے پاس ايك باندي هو جس سے وه تمتع كرتا تھا پھر اس نے اس كي تربيت كي اور اچھي تربيت كي۔ اور اس نے اس كي تعليم دي اور بهتر تعليم دي ۔ پھر اس نے اس كو آزاد كيا اور اس سے نكاح كرليا (متفق عليه)۔
آدمي ايك كام كو جائز اور درست سمجھ کر اس ميں مشغول هو۔ تو وه اس سے پوري طرح مانوس هوجاتا هے۔ اس كے لیے كسي نئي نيكي كو دريافت كرنا اور اس كو عملاً اختيار كرنا بظاهر ايك مشكل كام بن جاتا هے۔ ايسي حالت ميں جو آدمي اپنے مانوس دائره سے نكل كر ايك اور نيكي كو دريافت كرے اور اس كو اپني زندگي ميں شامل كرے اس نے گويا حق كے راستے ميں دوهری منزليں طے كيں۔ يهي وجه هے كه ايسے آدمي كے لیے دوهرا انعام مقرر كيا گيا ہے۔