منسوخ، موقوف

دین کے احکام ممکن طور پر دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو قابل تنسیخ ہوں، اور دوسرا وہ جن کو منسوخ تو نہ کیا جاسکتا ہو، لیکن ان کو وقتی طور پر موقوف کرنا درست ہو۔ کسی شرعی حکم کو منسوخ (abrogate) کرنا ایک ا صولی معاملہ ہے۔ اور اصولی معاملہ میں تغیر کا حق صرف شارع کو ہے۔ اور جہاں تک موقوف (suspend) کرنے کا معاملہ ہے، وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے، اور امت کے علماء دلائل شرعیہ کے ذریعہ بطور اجتہاد ایسا کرسکتے ہیں۔

ہجرت کے بعد وقتی طور پر قبلۂ یہود کو قبلۂ مسلمین قرار دے دیا گیا، لیکن بعد کو یہ حکم متروک ہوگیا (البقرۃ: 143-144)، اور کعبہ ابدی طور پر اہل اسلام کا قبلہ قرار پایا۔ اب کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس حکم میں تغیر کرے۔کسی حکم کو موقوف قرار دینے کا معاملہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ مثلاً اعداد قوت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس سےمراد تیر اندازی ہے۔ رسول اللہ نے قرآن کی آیت پڑھی: وأعدوا لہم ما استطعتم من قوة[8:60]، اورتین مرتبہ کہا:ألا إن القوة الرمی (صحیح مسلم، حدیث نمبر167)۔موجودہ زمانے میں اس حکم کی حیثیت ایک موقوف حکم کی ہے، لیکن اگر کسی وقت حالات کا تقاضا ہو کہ رمی (تیراندازنی)کے طریقے کو دوبارہ اختیار کیا جائے، تو اس طریقے کو اختیارکیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ کسی حکم کا موقوف ہونا،ہمیشہ مشروط معنی میں ہوتا ہے۔

کسی حکم کو منسوخ قرار دینے کا اختیار صرف شارع کو ہے، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول کو۔ اس کےبرعکس، جہاں تک موقوف قرار دینے کا معاملہ ہے، یہ ایک اجتہادی فعل ہے۔ امت کے علماء کو یہ حق ہے کہ وہ قانونِ ضرورت (law of necessity)کے تحت کسی حکم کو وقتی طور پر موقوف قرار دے دیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اصحاب رسول کے زمانے میں اہل فتنہ سے قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم چوں کہ شریعت کے متن میں موجود ہے، اس لیے کوئی شخص اس کو منسوخ نہیں قرار دے سکتا، البتہ ضرورت شرعیہ کے تحت بطور اجتہاد اس حکم کو موقوف قرار دیا جاسکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom