رے آف ہوپ
تخلیق کے قانون کے مطابق، موت ہر عورت اور ہر مرد پر آتی ہے۔ موت کیا ہے۔ موت یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے مکمل طور پر جدا ہوجائے، اور اس دنیا میں پہنچ جائے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔یہ آخرت کی دنیا کیا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی دنیا ہے۔ وہاں وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (الانفطار16:) کا اصول رائج ہے۔ موجودہ دنیا بھی اللہ کے حکم کے تحت ہے۔ لیکن یہاں سب کچھ غیب میں ہو رہا ہے۔ آخرت وہ جگہ ہے، جہاں اللہ کی ہستی ایک مشہود ہستی بن جائے گی۔ جہاں بندہ براہ راست طور پر اپنے رب کے سامنے اپنے آپ کو پائے گا۔
اللہ کا تصور یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان پر جب موت آتی ہے تو اس کے لیے یہ ایک ایسے سفر کی طرف جانا ہوتا ہے، جہاں اس کی ملاقات اللہ رب العالمین سے ہونے والی ہے، جہاں بندہ اپنے آپ کو معبود کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا۔ جب معبود رحمان و رحیم ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اور رب کی یہ ملاقات یقیناً ایک پُرامید ملاقات ہوگی۔ یہاں بندہ اپنے رب کی طرف سے وہ چیز پائے گا، جس کی امید وہ ایک مہربان رب سے کیے ہوئے تھا۔
ایک حدیث قدسی میں آیا ہے:أنا عند ظن عبدی بی (مسند احمد، حدیث نمبر 9076)۔ یعنی میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ رب العالمین ایک رحیم و کریم رب ہے، اس کی مہربانیاں ہر مخلوق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ایسا انسان ضرور یہ بھی مانے گا کہ جب اس کی ملاقات اللہ سے ہوگی تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے رب کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا، جو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔بندے کا یہ احساس اس کو ضرور یہ یقین دے گا کہ میرا رب ایک مہربان رب ہے، وہ ضرور میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرے گا۔ یہ یقین کسی بندے کے لیے اس کی موت کو ایک مثبت موت بنا دیتا ہے۔