کامیابی کا اصول
ایک مصنف نے لکھا ہے— وقت اور سمجھ دونوں اکثر ایک ساتھ نہیں آتے۔ جب وقت آتا ہے تو سمجھ نہیں ہوتی ہے، اور جب سمجھ آتی ہے تو وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں تاکہ وقت آئے تو آپ اس وقت کو استعمال کرنا جانیں۔یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے وہ قابل عمل نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیشگی طور پر باتوں کو سمجھ نہیں سکتا، وہ تجربہ کے ذریعہ سیکھتا ہے۔ یعنی نقصان پہلے آتا ہے، اور عقل اس کے بعد آتی ہے۔ پہلے آدمی کچھ کھوتا ہے، اس کے بعد وہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو پانے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ انسان پہلے اپنے اندازہ(assessment) کی غلطی کا تجربہ کرتا ہے، اور اس کے بعد وہ اس فن کو جانتا ہے کہ صحیح اندازہ کا اصول کیا ہے۔
اس لیے موجودہ دنیا میں کامیابی کاراز یہ نہیں ہے کہ آدمی غلطی نہ کرے۔ بلکہ کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی سے سبق حاصل کرے۔اس اعتبار سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی نے اگر پہلے موقع کو کھویا ہے تو وہ اپنا نیا منصوبہ زیادہ بہتر انداز پر بنائے تاکہ وہ دوسرے موقع کو نہ کھوئے۔ اسی اصول کا نام پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان پہلے موقع کو ضرور کھوتا ہے۔ دانش مند آدمی وہ ہے جو پہلے کھونے سے تجربہ حاصل کرے اور پھرزیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ وہ دوسرے موقع کو حاصل (avail)کرسکے۔
وزڈم کی دو صورتیں ہیں۔ آئڈیل وزڈم (ideal wisdom) اور پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)۔ آئڈیل وزڈم اپنی ذات کے لیے درست ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں آئڈیل وزڈم قابل حصول نہیں۔ اس لیے زندگی کے لیے صحیح اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کے معاملے میں آئڈیل وزڈم کو اپنائے، لیکن جب معاملہ اجتماعی زندگی کا ہو تو وہ پریکٹکل وزڈم پر راضی ہوجائے— صبر دراصل اسی پریکٹکل وزڈم کا نام ہے۔