رسول، صحابی، کافر

کسی لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے، اور ایک اس کا اصطلاحی مفہوم۔ جب ایک لفظ ایک مخصوص اصطلاح (term) کے معنی میں بولا جانے لگے تو اس لفظ کو اس کے مخصوص اصطلاحی مفہوم ہی میں استعمال کیا جائے گا۔ کسی اور معنی میں اس کو استعمال کرنا درست نہ ہوگا۔ یہ اصول مذہب کے شعبوں میں بھی ہے اور سیکولر شعبوں میں بھی۔

اسلام میں رسول اور صحابی اور کافرکے الفاظ، اصطلاحی الفاظ کی حیثیت رکھتےہیں۔ اب ان کو ان الفاظ کے اصطلاحی معنی ہی میں استعمال کیا جائے گا، کسی اور معنی میں ان کا استعمال درست نہ ہوگا۔ اسلام میں رسول ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ اصطلاح کے اعتبار سے اس کا مفہوم ہے فرستادۂ خدا (messenger of God)۔ صحابی سے مراد رسول اللہ کا وہ معاصر انسان ہے جس نے براہ راست آپ سے دین کو پایا ہو، اور اس کو اخلاص کے ساتھ اپنا لیا۔

اسی طرح اسلام میں کافر بھی ایک اصطلاحی لفظ ہے۔کافر کا لغوی مفہوم ہے انکار کرنے والا۔ مگر اصطلاحی اعتبار سے اس کا مطلب ہے منکر رسول۔ یعنی رسول اللہ کا وہ معاصر انسان جس نے براہ راست رسول سے دین کو پایا لیکن اس نے اس کا اعتراف نہیں کیا، بلکہ وہ اس کا منکر بن گیا۔ اس اعتبار سے اسلام میں کافر کا مطلب ہے، معاصر منکر رسول۔

کافر کوئی قومی لقب نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو مسلمان نہ ہو وہ کافر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاً ہر آدمی ایک انسان ہے۔ دنیاوی تعلقات کے اعتبار سے ایک انسان اور دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں۔ فرق کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے۔ قیامت میں اللہ رب العالمین کسی انسان کو جو درجہ دے، وہی اس کا درجہ ہے۔ دنیا کی زندگی میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود کسی کو غیر قوم یا کافر قوم کہے۔ کافر کے لفظ کا رواجی استعمال، ہم اور غیر (we and they) کا تصور پیدا کرتا ہے۔ حالاں کہ اسلام کے مطابق، صحیح تعلق وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom