تعارفی ماڈل
ہر عورت اور مرد جو اس دنیا میں آتے ہیں، وہ فطری طور پر بہت سی خواہشات (desires) لے کر آتے ہیں۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ ان خواہشوں کی تکمیل کرے، لیکن ہر انسان آخر میں محسوس کرتا ہے کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ فل فلمنٹ (fulfilment) سے محروم رہا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ انسان کو اس کا اپناہیبٹاٹ (habitat) نہیں ملا۔
انسان دیکھتا ہے کہ اس دنیا میں چڑیوں کو ان کا ہیبٹاٹ ملا ہوا ہے، مچھلیوں کو ان کاہیبٹاٹ ملا ہوا ہے۔ لیکن انسان اپنے ہیبٹاٹ سے محروم ہے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ایک مکمل کائنات ہے۔اس دنیا میں ہر طرف کامل ڈیزائن (design) ہے، اس دنیا میں ہر طرف اعلی منصوبہ ہے، اس دنیا میں ہر طرف ذہانت کے نمونے ہیں۔ مگر انسان کا ہیبٹاٹ وسیع دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اس معاملے کو دیکھ کر ایک سائنسداں نے کہا تھاکہ بظاہر انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے، جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی:
It appears that the world was not made for him
انسان کا ہیبٹاٹ بظاہر اس دنیا میں ایک گم شدہ آئٹم (missing item) ہے۔ اب اگر آپ اس نظر سے قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دریافت کریں گے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو اس گم شدہ آئٹم کی نشاندہی کررہی ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو قرآن کے علمی مطالعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب عظمت قرآن، صفحات 151)۔قرآن کے مطابق یہ گم شدہ آئٹم وہی ہے جس کو جنت کہا جاتا ہے۔ اس لیے جنت کے بارے میں قرآن انسان کو خطاب کرتے ہوئے بتاتا ہے: اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے(41:31)۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ سیارۂ ارض (planet earth) میں وہ تمام آئٹم موجود ہیں، جن کی خواہش انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ تمام خواہشیں غیر کامل حالت میں ہیں، کوئی بھی خواہش یہاں کامل حالت میں موجود نہیں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے، اور وہاں کی تمام اعلیٰ چیزوں کا تجربہ کریں گے، تو وہ کہیں گےکہ یہ تو وہی ہے جو ہم کو دنیا میں ملا تھا، اور جنت دنیا کی متشابہ (similar) ہوگی(البقرۃ: 25)۔
اس پورے معاملے پر غور کیجیے تو آپ یہ دریافت کریں گے — خالق نے انسا ن کو ایک مکمل وجود کی حیثیت سے پیدا کیا اور اس کو موجودہ زمین پر بسایا۔ مگر انسان اور اس زمین کے اندر ایک عدم مطابقت تھی۔ وہ یہ کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے فل فلمنٹ چاہتا تھا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کو کوئی بھی چیز کامل فل فلمنٹ کے درجے میں حاصل نہیں ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں انسان کو ملتی ہیں، وہ صرف بقدر ضرورت ملتی ہیں۔ وہ انسان کو بقدر فل فلمنٹ نہیں حاصل ہوتیں۔ اس محرومی کی بنا پر انسان اس دنیا میں ماہی ٔ بے آب (fish without water) کی طرح تڑپتا ہے، اور اسی حال میں مرکر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
مطالعے کے مطابق، موجودہ کائنات ایک مکمل کائنات ہے، اس میں کوئی نقص موجود نہیں۔ قرآن (الملک:3)بھی دعویٰ کی زبان میں کہتا ہے کہ اگر تم اس کائنات کا مطالعہ کرو تو تم پاؤگے کہ یہ ایک بے نقص کائنات (flawless universe) ہے۔ آپ کا مطالعہ ایک طرف یہ بتائے گا کہ موجودہ دنیا میں بظاہر انسانی تقاضے کے تمام آئٹم موجود ہیں، مگر یہ تمام آئٹم یہاں نامکمل حالت میں ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے باوجود انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو اپنے فطری تقاضوں کاکامل فل فلمنٹ نہیں ملا۔ قرآن کی روشنی میں آپ کا مطالعہ بتائے گاکہ انسان کا اصل ھیبٹاٹ تو موت کے بعد دوسری زندگی میں ہے، جو ابدی بھی ہے اور کامل بھی۔ موجودہ دنیا میں خالق نے بطور رحمت خاص ایساکیا ہے کہ انسان کے اصل ہیبٹاٹ کا ایک تعارفی ماڈل (introductory model) رکھ دیا ہے۔ تاکہ انسان موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد آنے والے دورِ حیات کا ابتدائی تعارف حاصل کرسکے، اور پھر اس کے مطابق اپنی ابدی زندگی کی تعمیر کرے۔