تردیدی لٹریچر

قرآن کی ایک تعلیم یہ ہے کہ دعوت حق کا کام مثبت انداز میں کیا جائے، منفی انداز میں نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کا مطالعہ کیجیے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108)۔ یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالی دینے لگیں گے۔

قرآن کی یہ آیت جب اتری تو اولاً اس کا خطاب اصحاب رسول سے تھا۔ حدیث و سیرت کے ذخیرے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ اس زمانے کے غیر مسلموں سے سبّ و شتم کی زبان بولتے تھے۔ سبّ و شتم کا لفظ یہاں شناعت کے اعتبار سے آیا ہے، نہ کہ واقعہ کے اعتبار سے۔ اصل میں جو واقعہ ہوا تھا، وہ یہ کہ بعض صحابی نے غیر احسن مجادلہ کی زبان میں بعض یہود سے گفتگو کی۔ مثلا ایک یہودی نے کہا کہ موسی تمام عالم سے افضل ہیں۔اس کو سن کر ایک صحابی نے کہا کہ محمد تمام اہل عالم سے افضل ہیں۔ یہ بات بڑھی، یہاں تک کہ صحابی نے یہودی کو ماردیا۔

مذکورہ آیت میں اہل ایمان کو اسی قسم کے غیر احسن مجادلہ سے روکا گیا ہے۔ کیوں کہ جب بھی غیر احسن انداز میں مجادلہ کیا جائے گا تو اس کا رد عمل (reaction) ہوگا۔ اس اصول کی روشنی میں تردیدی انداز دعوت، یقینی طور پر غیر اسلامی انداز دعوت ہے۔ کیوں کہ اگر آپ ردّ عیسائیت اور ردّیہودیت کے اسلوب میں کتابیں لکھیں گے، تو دوسرا فریق بھی ردّ اسلام کے انداز میں کتابیں لکھے گا۔ تردیدی اسلوب کا ردّعمل ہمیشہ تردیدی اسلوب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

تردیدی اسلوب کی کوئی حد نہیں۔ تردیدی اسلوب جس طرح دوسرےمذاہب کے خلاف ممکن ہے، ٹھیک اسی طرح وہ اسلام کے خلاف بھی ممکن ہے۔ یہ اسلوب کی بات ہے، نہ کہ حق و ناحق کی بات۔ موجودہ زمانہ میں مناظرہ (debate) کا طریقہ نتیجہ کے اعتبار سے اسی سبّ و شتم کا طریقہ ہے۔ دعوت کا موثر اسلوب صرف مثبت اسلوب ہے، تردیدی اسلوب ہرگز نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom