سب سے بڑی قربانی
عبداللہ بن وابصہ العبسی اپنے باپ سے اپنے دادا کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں ہماری قیام گاہ پر منیٰ میں آئے۔ ہم جمرۂ اولیٰ پر مسجد الخیف کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ اپنے اونٹ پر تھے اور اپنے پیچھے زید بن حارثہ کو بٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے ہم کو توحید کی طرف دعوت دی۔ خدا کی قسم، ہم نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا اور ہم نے اچھا نہیں کیا۔ہم آپ کے بارے میں سن چکے تھے اور یہ بھی سن چکے تھے کہ آپ حج کے موسم میں لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ہمارے پاس کھڑے ہوکر ہمیں دعوت دیتے رہے اور ہم چپ چاپ سنتے رہے۔اس وقت ہمارے ساتھ میسرہ بن مسروق العبسی بھی تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرہم اس آدمی کی تصدیق کریں اور اس کو لے جاکر اپنے قافلہ کے بیچ ٹھہرائیں تو یہ بڑا اہم فیصلہ ہوگا۔ خدا کی قسم، اس کا دین غالب ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ اس کو چھوڑو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو ہم میں سے کوئی ماننے والا نہیں۔
یہ بات سن کر رسول اللہ میسرہ کے بارے میں پُر امید ہوگئے۔ آپ نے ان سے مزید گفتگو کی۔ میسرہ نے جواب دیا کہ آپ کا کلام کتنا اچھا اور کتنا روشن کلام ہے۔ لیکن اگرمیں اس کو مان لوں تو میری قوم میری مخالف ہوجائے گی۔ اور آدمی ہمیشہ اپنی قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ قوم اگر مدد نہ کرے تو دشمنوں سے مدد کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔( السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،2/170)
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی روش کے خلاف ایک روش اختیار کرے۔ وہ اپنی قوم کے عام مزاج کے خلاف کام کرے۔ وہ ایسی بات کہے جو قوم کے وقار سے ٹکراتی ہو۔ وہ ایسی پالیسی کی تبلیغ کرے جو قومی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ایساآدمی اپنی قوم سے کٹ جاتاہے۔ وہ خود اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔