امید کا سر چشمہ
قرآن و حدیث میں کئی ایسی آیتیں اور حدیثیں ہیں جو بندوں کے لیے امید کا سر چشمہ ہیں۔ ان میں سےچند حوالے یہ ہیں۔ اس قسم کی ایک آیت قرآن میں یہ ہے:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس آیت کے بارے میں علی ابن ابی طالب کہتے ہیں:ما فی القرآن آیة أوسع من ہذہ الآیة۔ یعنی قرآن میں اس سےزیادہ گنجائش والی کوئی اور آیت نہیں۔عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں: ہذہ أرجى آیة فی القرآن۔یعنی یہ قرآن کی سب سے زیادہ امید والی آیت ہے۔ عبد اللہ ابن عباس ایک اور آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن میں سب سے زیادہ امید والی آیت (أرجى آیة فی القرآن) ہے۔ وہ آیت یہ ہے: وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِہِمْ(13:6) یعنی تمہارا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کو معاف کرنے والا ہے۔دیکھیے تفسیر القرطبی،القاھرۃ، 1969ء، 15/269۔
اس مضمون کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: لما قضى اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر3194)۔ یعنی حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نےاپنی کتاب میں لکھا۔ یہ کتاب اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے۔(اس میں اللہ نے یہ لکھا ہے):میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
اس طرح کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں، جن سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت رحم و درگزر کا معاملہ کرنے والا ہے۔ یہ بات اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔ اللہ رب العالمین نے انسان کو آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اس لیے اللہ کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ انسان کے ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ عفو ودرگزر کا معاملہ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک جو چیز سب سے زیادہ ناقابل معافی ہے، وہ سرکشی ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا یدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال ذرة من کبر (صحیح مسلم، حدیث نمبر147)۔ وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا، جس کے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو۔ اس کے مقابلے میں جو آدمی عجز کا ثبوت دے، جو اپنے آپ کو انانیت (ego) سے خالی انسان بنائے۔ اس کے بارے میں اللہ سے قوی امید ہے کہ اللہ رب العالمین اس کے ساتھ رحمت اور مغفرت کا معاملہ کرے گا۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک شخص کے اندر تواضع (modesty) پائی جائےتو غلطی کرنے کے بعد وہ تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ عجز سے بھری ہوئی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے قول اور عمل میں انکساری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ برتری کے جذبے سے مکمل طور پر خالی ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ ایک نئی شخصیت اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ پورے معنوں میں ایک مزکّی انسان بن جاتا ہے۔ یہ تبدیلی جو اس کی شخصیت کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ یہی در اصل وہ چیز ہے، جو اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ اس سے عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے، اس کو جنت میں داخلہ دیا جائے۔
جنت اس کے لیے ہے جو جنتی کردار والی شخصیت لے کر آخرت میں پہنچے۔ جنت سے محرومی اور جنت کا ملنا، دونوں کا تعلق کردار (character)سے ہے۔یہی وہ اصل چیز ہے جو کسی انسان کےلیے آخرت میں کامیابی یا ناکامی کا سبب ہے۔ جنت سے محرومی بھی معلوم اسباب کی بنا پر ہوگی، اور جنت کا پانا بھی معلوم اسباب کی بنا پر ہے۔