رسول اور اصحابِ رسول
تمام پیغمبروں کےآخر میں اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ حضرت علی، رسول اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو بھی آپ کو پہلی بار دیکھتا مرعوب ہوجاتا۔ جو ساتھ بیٹھتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3638)
ایک حدیث (جامع الاصول، حدیث نمبر9317)میں ہے رسول اللہ فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے 9 باتوں کا حکم دیا ہے:
1۔ کھلے اورچھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں۔
2۔ غصہ میں ہوں یا خوشی میں ہمیشہ انصاف کی بات کہوں۔
3۔ محتاجی اور امیری میں دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہوں۔
4۔ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔
5۔ جو مجھے محروم کرے میں اس کو دوں۔
6۔ جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں۔
7۔ اور میری خاموشی غور وفکر کی خاموشی ہو۔
8۔ میرا بولنا یادِ الٰہی کا بولنا ہو۔
9۔ میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقل مند شخص کے لئے لازم ہے کہ اس پر کچھ گھڑیاں گزریں۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے باتیں کرے۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ کرے۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ خدا کی تخلیق میں غور کررہا ہو اور ایسی گھڑی جب کہ وہ کھانےپینے کی ضرورتوں کے لئے وقت نکالے۔ (ابن حبان، حدیث نمبر 361)
حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ان کے گھر میں تھے، آپ نے خادمہ کو بلایا، اس نے آنے میں دیر کردی۔ آپ کے چہرے پر غصہ ظاہر ہوگیا۔ اُم سلمہ نے پردے کے پیچھے جاکر دیکھا تو خادمہ کو کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ کو مخاطب کرتےہوئے فرمایا: اگر قیامت کے دن مجھے بدلہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تجھ کو اس مسواک سے مارتا (لولا خشیة القود یوم القیامة، لأوجعتک بہذا السواک)۔الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 184
بدر کی جنگ 2 ہجری میں ہوئی۔ جو لوگ قیدی بن کر آئے وہ رسول اللہ کے بدترین دشمن تھے مگر آپ نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ اِن قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا۔ وہ اپنی شاعری سے رسول اللہ کے بارے میں گستاخانہ تقریر کرتا تھا۔ حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ اس کے سامنے والے دانت توڑ دیے جائیں تاکہ آئندہ یہ تقریر نہ کرسکے۔ لیکن آپ نے فرمایا: اگر میں ایسا کروں تو خدا میرا چہرہ بگاڑ دے گا اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں ( لا أمثل بہ فیمثل اللہ بی وإن کنت نبیا)۔سیرۃ ابن ہشام، 1/649
حسن بصری تابعی نے ایک بار اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہا: میں نے 70 بدری صحابیوں کو دیکھا ہے۔ ان کا لباس زیادہ تر صوف کا ہوتا تھا۔ اگر تم ان کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ مجنون ہیں (مجانین)۔اور اگر وہ تم کو دیکھتے تو کہتے کہ ان کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے (ما لہؤلاء من خلاق)۔اور اگر وہ تمھارے بروں کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ حساب کے دن پر یقین نہیں رکھتے (ما یؤمن ہؤلاء بیوم الحساب)۔حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 2/134
عبد اللہ بن مسعود کہتےہیں کہ اصحابِ رسول اس امت کے بہترین لوگ تھے وہ بہت اچھے دل والے، بہت گہرے علم والے اور تکلفات سے دور تھے(کانوا خیر ہذہ الأمة، أبرہا قلوبا، وأعمقہا علما، وأقلہا تکلفا)۔حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1/305۔ رسول اور اصحاب رسول کی یہ زندگی اختیاری زندگی تھی، وہ کسی مجبوری کی بنا پر نہ تھی۔ یہی طریقہ بعد کے لوگوں کے لیے بھی نمونہ ہے۔