دنیا کی تخلیق
سائنسی دریافت کے مطابق، تقریباً تیرہ بلین سال پہلے خلا (space)میں ایک دھماکہ ہوا۔ اس کو بگ بینگ کہا جاتا ہے۔اس دھماکے کے بعد ہماری دنیا کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ایک منصوبہ بند پراسس (well-calculated planning) کے تحت پوری کائنات وجود میں آئی۔ کہکشائیں (galaxy) وجود میں آئیں، شمسی نظام (solar system) بنا، سیارۂ ارض کی تخلیق ہوئی، پانی، ہوا، سبزہ اور حیوانات وجود میں آئے۔آخر میں انسان کی آبادی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ موجودہ آباد دنیا وجود میں آئی۔
دنیا میں پیش آنے والے ان واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا کی تخلیق ایک منصوبہ بند انداز میں ہوئی۔ دنیا کے آغاز سے لے کر اب تک جو باتیں پیش آرہی ہیں، وہ سب اس منصوبہ بند تخلیق کی تائید کرتی ہیں۔ اس کے سوا اس ظاہرے کی کوئی اور توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کے اعتبار سے دنیا کا انجام کیا ہے۔ قرآن اس واقعہ کو جاننے کا مستند ذریعہ ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو ابتلا (الملک:2)کے لیے پیدا کیا۔ یعنی ایک تربیتی کورس سے گزار کر ایسے لوگوں کو جاننا جوقابل انتخاب ہوں۔ آخر میں اللہ رب العالمین ایسے لوگوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر ان کو منتخب کرے گا، اور ان کو آخرت کی ابدی جنت میں داخل کرے گا۔ جنت میں داخلہ کسی اور بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ صرف اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی نےاپنی آزادی کا غلط استعمال کیا یا صحیح استعمال کیا۔ اس نے اپنے قول و عمل سے اپنے اندر جو شخصیت تعمیر کی، وہ جنت میں رہنے کے قابل ہے، یا اس میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے پرابلم پرسن بنے، یا وہ لوگوں کے درمیان پر امن طور پر رہے۔ اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یدخل الجنة أقوام، أفئدتہم مثل أفئدة الطیر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2840)۔ یعنی جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل چڑیوں کے دل کی مانند ہوں۔