مثل قرآن

ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے: ألا إنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ، ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ، ألا یوشک رجل ینثنی شبعانا على أریکتہ یقول:علیکم بالقرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ(مسند احمد، حدیث نمبر17174)۔یعنی سن لو، بیشک مجھے کتاب دی گئی ہے اور اسی کے ساتھ اس کے مثل۔ بیشک مجھے قرآن دیا گیاہے اور اسی کے ساتھ اس کے مثل۔سن لو، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھا، کہے گا کہ تمہارے لیے قرآن کافی ہے، پس تم اس میں جو حلال پاؤ تو اسے حلال سمجھو اور جو اس میں تم حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو۔

اس حدیث میں مثل سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں حکمت (البقرۃ:129) کہا گیا ہے،یعنی قرآن اور حکمت قرآن۔حکمت سے مراد وزڈم (wisdom) ہے۔ قرآن کا ابتدائی مفہوم اس کے متن (text) کو پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے، اور جہاں تک حکمت کا تعلق ہے، وہ تدبر (ص:29)کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے: کان متواصل الأحزان، دائم الفکرة، لیست لہ راحة، طویل السکت، لا یتکلم فی غیر حاجة (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر3705)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل حُزن میں رہتے تھے، وہ برابر سوچ میں رہتے، آپ کے لیے کوئی راحت نہیں ہوتی تھی، آپ دیر تک چپ رہتے، ضرورت کے سوا کسی اور چیز کے لیے آپ نہ بولتے۔

مذکورہ روایت میں پانچ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ پانچوں الفاظ ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ مسلسل طور پر تدبر اور تفکر میں رہتے تھے۔ حُزن سے مراد غم نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کامل سنجیدگی (total seriousness) ہے۔ یعنی ہر وقت انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچتےرہنا۔

مثلا ًقرآن کی 29 سورتوں کے آغاز میں وہ حروف آئے ہیں، جن کو حروفِ مقطعات کہا جاتا ہے۔ یہ حروف الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، اسی لیے ان کو حروف مقطعات (disjointed letters or disconnected letters)کہا جاتا ہے۔ حروف مقطعات عربی زبان کے حروف تہجی (alphabets) پر مشتمل ہیں۔ اس سے مراد غالباً یہ ہے کہ قرآن اگر چہ بظاہر انسانی زبان میں اترا ہے، اس اعتبار سے اس کا ایک مطلب وہ ہےجو سطور میں ہے، لیکن اس کا دوسرا مطلب وہ ہے جو تدبر کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں آیا ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر عربی زبان سے بخوبی واقف ہو، اور وہ قرآن کو پڑھے تو قرآن کے متن کے سطور (lines)میں جو بات ہے، اس کو وہ جان لے گا۔ لیکن قرآن کے جو عمیق معانی ہیں، وہ متن کے بین السطور (between the lines) ہیں۔ ان عمیق معانی کو جاننے کا ذریعہ صرف تدبر ہے۔ اگر آدمی حقیقی معنوں میں سنجیدہ اور ہدایت کا طالب ہوتے ہوئے قرآن میں غور و فکر کرے تو وہ قرآن کے گہرے معانی کو دریافت کرلے گا۔ وہ متن قرآن کے اندر چھپی ہوئی حکمت کی دریافت تک پہنچ جائے گا۔

مثلا ً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کو مشن کے معاملے میں صراط مستقیم کی ہدایت (الفتح:2) ملی۔قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو مذکورہ ہدایت کہیں الفاظ (وحی متلو)کی صورت میں نہیں ملے گی۔ پھر رسول اللہ کو اس ہدایت کی معرفت کیسے ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معرفت آپ کو تدبر کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہدایت یہ تھی — وکٹمائزڈ کمیونٹی (victimized community) کے جذبات (sentiments) کو لے کر اپنی پلاننگ نہ کرنا، بلکہ وسیع تر دنیا میں جو مواقع (opportunities) ہیں، ا ن کو لے کر اپنے عمل کا پلان بنانا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom