جامع تعبیرِِ تاریخ
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (Arnold J. Toynbee)نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب تیار کی ہے، جو دنیا کی انیس تہذیبوں ( 19 world civilizations) کا مطالعہ ہے۔ اس کی آخری جلد 1961 ء میں چھپی۔تاہم یہ کتاب انسانی تاریخ کا جزئی مطالعہ ہے۔ ایک ایسی کتاب کی ضرورت باقی ہے، جو انسانی تاریخ کی جامع تعبیر (comprehensive interpretation of history) پیش کرے۔
میں نے اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے۔ میرےمطالعہ کے مطابق، یہ موضوع ایک مشکل موضوع ہے۔ کیوں کہ ٹائن بی جیسے مؤرخین کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ تاریخ کے معلوم ریکارڈ کی بنیاد پر تاریخ کی ایک موضوعی تصویر پیش کرے۔ لیکن تعبیر (interpretation) کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کیوں کہ یہ موضوع تجزیاتی مطالعہ (analytical study) کا موضوع ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ مصنف تاریخی معلومات کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرکے اس کی بامعنی تعبیر پیش کرے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، معلوم تاریخ چھ ادوار (periods) میں تقسیم ہوتی ہے:
1۔ مادی دنیا (material world)، بگ بینگ (big bang) سے لے کر اب تک۔
2۔ شمسی نظام (solar system)، جس کے اندر آخر کار انسانی دنیا بنی۔
3۔ انسانی تاریخ (human history)
4۔ پیغمبرانہ مشن(prophetic mission)
5۔ تہذیبی تائید (civilizational support)
6۔ آخری اعلان (final call)، یعنی انسان کے ایک دورِ حیات کا خاتمہ اور اس کے دوسرے دورِ حیات کا آغاز۔
رب العالمین نے تقریباً تیرہ بلین سال پہلے موجودہ کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اس نے پارٹیکلس (particles) یعنی اجزاءِ کائنات کی تخلیق کی۔ پارٹیکلس کا یہ مجموعہ ابتداءمیں ایک عظیم کاسمک بال (cosmic ball) کی صورت میں خلا میں ظاہر ہوا۔ پھر اس کاسمک بال میں انفجار (explosion)ہوا۔ اس کے بعد تمام ستارے اور کہکشائیں (galaxies) وجود میں آئیں۔
دوسرے مرحلہ میں شمسی نظام بنا۔ پھر شمسی نظام کا ایک سیارہ زمین (planet earth)اپنی موجودہ شکل میں وجود میں آیا۔ اس سیارۂ زمین پر پانی، نباتات، اور حیوانات وجود میں آئے۔ انسان اس زمین پر آباد ہوا۔ پھر انسانوں کے درمیان ایسے ربّانی افراد پیدا ہوئےجنھوں نے خدا کی خصوصی رہنمائی میں دنیا میں پیغمبرانہ مشن جاری کیا۔
ختم نبوت کے بعد تاریخ کا اگلا دورآیا۔ اس دور میں صلیبی جنگوں (1096-1487)کا سلسلہ چلا۔ اس درمیان ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے تحت سائنسی ترقیاں شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ اس تہذیب نے انسان کے اوپر ترقی کے وہ دروازے کھولے جواگرچہ بالقوہ طور پر ہمیشہ سے موجود تھے، لیکن بالفعل طور پروہ بند پڑے ہوئےتھے۔یہ تہذیب بظاہر ایک سیکولر تہذیب تھی، لیکن عملاً وہ پیغمبرانہ مشن کے موافق (pro-prophetic mission) تہذیب کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس تہذیب نے فطرت کے جو راز دریافت کیے، ان کو قرآن میں آفاق و انفس کا اظہار (فصلت:53) کہا گیا ہے۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے پیغمبر کے مشن کے لیے ایک مدد گار تہذیب تھی۔ یہی وہ تاریخی واقعہ ہے جس کو حدیث میں تائیدِ دین (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
جس خدا نے کائنات کی تخلیق کی۔ اسی خدا نے اپنی کتاب،قرآن کو انسان کے پاس بھیجا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تخلیق کے بارے میں خالق کا منصوبہ کیا ہے۔ اس منصوبہ کے مطابق، موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی ہے کہ یہاں انسان آزادانہ طور پر اپنا عمل کرے۔ انسان اپنے آپ کو ربانی شخصیت (Rabbani Personality) کی صورت میں ڈیولپ کرے۔
انسانی تاریخ کی بامعنی تعبیر (meaningful interpretation)میں صرف ایک چیز لوگوں کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔ وہ یہ کہ اکثر لوگ اپنے خود ساختہ معیار (self-styled criterion) سے انسانی تاریخ کو جانچتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسانی تاریخ کو خالق کے مقرر کردہ معیار کی روشنی میں دیکھا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں پوری تاریخ ایک بامعنی تاریخ بن جائے گی۔
اصل یہ ہے کہ انسانی دنیا اور مادی دنیا میں ایک بنیادی فرق ہے۔ مادی دنیا فطرت کے لازمی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اس لیے فطرت کو سمجھنے کا ایک معلوم حتمی معیار موجود ہے۔ اس معیار کو برطانی سائنسداں نیوٹن نے فطرت کے مطالعہ پر کامیابی کے ساتھ منطبق کیا، اس کا انطباق (application) درست ثابت ہوا۔ لیکن انھیں قوانین کو کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے انسانی تاریخ پر منطبق کرنا چاہا تو وہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔خالق نے انسان کو استثنائی طور پر سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی عطا کی ہے۔ اس بنا پر انسانی تاریخ کا واحد غیر متغیر نقشہ نہیں بن سکتا۔ انسانی تاریخ کے مطالعے میں یہ کرنا ہوگا کہ اس کے متعلق حصہ (relevant part)کو غیر متعلق حصہ (irrelevant part) سے الگ کیا جائے۔ یعنی تاریخ کے مختلف اجزاء کو سارٹ آؤٹ (sort out)کرکے دیکھا جائے، غیر متعلق اجزاء کو الگ کرکے متعلق اجزاء کی روشنی میں انسانی تاریخ کی تصویر بنائی جائے۔ اس عمل کے بغیر تاریخ کی بامعنی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔
قرآن کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی تاکہ انسان فطرت کے قوانین کا مطالعہ کرے، اور ایک تہذیب وجود میں لائے۔ یہ کام اکیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچ چکا۔ اب دوسرا کام یہ ہے کہ آلاءاللہ (الرحمٰن13:)پر مبنی ایک برتر ربانی تہذیب کی تشکیل دی جائے۔ اس برتر تہذیب کو وہ لوگ وجود میں لاسکتے ہیں، جنھوں نے موجودہ دنیا میں اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا ہو۔ آخرت کی دنیا میں پوری تاریخ سے ایسے تیار شدہ اشخاص (prepared personalities) کو منتخب کرکےجنت کی عظیم دنیا میں جمع کردیا جائے گا۔ تاکہ وہ اگلی برتر تہذیب میں زندگی گزاریں۔