تصور دین
اسلام کی تاریخ، اپنے آغاز کے بعد تقریباً ہزار سال تک smoothly چلتی رہی۔ اٹھارویں صدی عیسوی سے اس میں خلل واقع ہوا۔ اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حدیث کے الفاظ میں مسلمانوں کے اندر سیف (sword) داخل ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں سارا معاملہ جیوپرڈائز (jeopardize)ہوگیا۔ یہ سلسلہ اکیسویں صدی کے فرسٹ کوارٹر تک جاری ہے۔
امام مالک نے اپنے استاد صالح بن کیسان کے حوالے سے کہا تھا کہ اس امت کا آخری حصہ بھی اسی طریقہ کو follow کرنے سے درست ہوگا جس طریقے کو follow کرنے سے اس کا ابتدائی حصہ درست ہوا تھا (مسند الموطا للجوہری، اثر نمبر783)۔ اس طریقے کو ایک لفظ میں منہج السلف کہا جاسکتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اسی منہج السلف کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔
یہ منہج السلف کیا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عہد رسالت کے بعد اسلامی تاریخ میں عہد خلافت آیا۔ یہ دور اسلام میں گولڈن پیریڈ تھا۔ یہ دور تقریباً چالیس سال تک جاری رہا۔ یہ دور شوریٰ (الشوریٰ:38) کے اصول پر قائم تھا۔ لیکن چالیس سال کے بعد مسلم دور خاندانی حکومت (dynasty) پر قائم ہوگیا۔ اس کے بعد مسلسل طور پر یہی دور جاری رہا۔ تمام علماء سلف جن کو ہم اکابر کہتے ہیں۔ انھوں نے اس نظام کو قبول کرلیا۔ یہاں تک کہ ان کا اجماع ہوگیا کہ اس سیاسی نظام کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
ایک اعتبار سے یہی منہج السلف تھا۔ سلف نے ایسا کیوں کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ خاندانی حکومت کے تحت ایک چیز قائم ہوگئی جو عملاً حکومت کا اصل مقصد ہے۔ اس مقصد کو قرآن میں تمکین فی الارض(الحج:41) کہا گیا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو سیاسی استحکام (political stability) کہا جاسکتا ہے۔
خاندانی نظام حکومت کے تحت جب سیاسی استحکام قائم ہوا تو پیس(peace) اور نارملسی (normalcy) قائم ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں تمام دینی کام کسی رکاوٹ کے بغیر ہونے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن محفوظ ہوا، حدیث کی جمع و تدوین ہوئی، فقہ سے متعلق سارے کام انجام پائے، اسلامی علوم کی تمام بنیادی کتابیں لکھی گئیں۔ مسجد اور مدرسہ اور حج کا نظام قائم ہوا۔ اسلام کی دعوت و اشاعت مسلسل طور پر جاری رہی، وغیرہ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد اسلام میں ملوکیت آگئی، ان کا کہنا بلاشبہ غلط ہے۔ اس لیے کہ مسئلہ ظاہری ڈھانچے کا نہیں ہے، بلکہ معنوی پہلو کا ہے۔ حکومت سے اصل مقصود کسی ظاہری ڈھانچے کو قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ استحکام (stability) قائم کرنا ہے۔ کیوں کہ جب استحکام کی حالت قائم ہوجائے تو ہر قسم کا تعمیری کام کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کو قائم ہونے والا وہ دور جس کو خاندانی دور حکومت کہا جاتا ہے، تمام علمائے سلف نے قبول کرلیا، بلکہ اسی زمانے میں یہ مسئلہ بنا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
اسلام میں اصل اہمیت مقصد کی ہے، نہ کہ ڈھانچے کی۔ ڈھانچہ خواہ کوئی بھی ہو، اگر شریعت کا مقصد حاصل ہورہا ہے تو اس ڈھانچے کو درست کہا جائے گا۔مقاصد شریعت کی فہرست میں خودساختہ اضافہ کرکے اگر کوئی شخص کہے کہ شریعت کا فلاں مقصد حاصل نہیں ہورہا ہے تو یہ نظام ملوکیت کا نظام ہے، نہ کہ اسلام کا مطلوب نظام۔ تو اس کا ایسا کہنا قابل قبول نہ ہوگا۔ کیوں کہ مقاصد شریعت میں استنباطی اضافہ کرنا، بذات خود ناقابل قبول ہے۔
ناریل کا درخت پورا کا پورا ایک عجیب قسم کا قدرتی کارخانہ ہے۔ اس کی ہر چیز مفید اور کار آمد ہے۔ ناریل کے درخت کی صفات اگر بیان کی جائیں تو پورا سفرنامہ اسی سے بھر جائے۔ ناریل کے جس خول کے اندر اس کا پانی رہتا ہے اس کی پیکنگ حیرت انگیز حد تک بامعنٰی ہوتی ہے۔ کئی تہہ کے اندر یہ پانی ہوتا ہے۔ اس کے اوپر کا خول نہایت سخت ہوتا ہے۔ وہ بہت مشکل سے ٹوٹتا ہے۔ مگر اس نہایت سخت خول کے سرے پر حیرت انگیز طورپر ایک نرم سوراخ ہوتا ہے جو نہایت آسانی سے کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعہ پانی نکال کر پیا جاسکتاہے۔ یہ سوراخ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک عاقل اور باشعور ہستی ہے۔ اس سوراخ میں جو حکمت ہے وہ باشعور خالق کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔