سفرنامہ امریکہ - ۳
اسلام کے بارے میں اس غلط فہمی کی ذمہ داری تمام تر نا اہل مسلم رہنماؤں پر ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے سب سے زیادہ اہمیت اپنے قومی مسائل کو دی ۔ چنانچہ جو قومیں انھیں ان کے قومی حوصلوں میں رکا وٹ نظر آئیں ، وہ ان کے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوگئے ۔ اس کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام اینٹی امریکن ازم، یا اینٹی ویسٹرن ازم کے ہم معنی بن گیا۔ اگر یہ رہنما دوسرے انسانوں کی نجاتِ آخرت کے لیے تڑپتے تو وہ دوسرے انسانوں کے سامنےوَٱللَّهُ يَدۡعُوٓاْ إِلَىٰ دَارِ ٱلسَّلَٰمِ(يونس: ۲۵) کاپیغام لے کر کھڑے ہوتے۔ یہ چیزانھیں دوسری قوموں کا خیر خواہ بناتی۔ دوسری قو میں ان کے لیے محبت کا موضوع بن جائیں۔ اور پھر لوگوں کو نظر آتا کہ اسلام ہمار ا موافق مذہب ہے نہ کہ ہمارا مخالف مذہب۔
یہ بلاشبہ اسلام کے حق میں سب سے بڑا نقصان ہے ، اور اسلام کو یہ نقصان اس کے دشمنوں نے نہیں پہنچایا بلکہ اسلام کے نادان دوستوں نے اسلام کو یہ سب سےبڑا نقصان پہنچایا ہے۔
امریکہ کے شہر پلین فیلڈ (Plainfield) سے ایک میگزین نکلتا ہے ۔ اس کا نام اسلامک ہورائزن (Islamic Horizons) ہے۔ اس کا شمارہ جولائی - اگست ۱۹۹۰ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے صفحہ ۳۹ پر " انڈین مسلم ریلیف کمیٹی " کا اشتہار تھا۔ اس میں اپیل کی گئی تھی کہ فلاں پتہ پر اپنے عطیات (donations) روانہ کریں۔ اس اشتہار میں یہ الفاظ درج تھے کہ چوں کہ ہندستان کے مسلمان کہتے ہیں کہ صرف اللہ ہمارا رب ہے ، اس لیے بے رحمانہ اور وحشیانہ ظلم ان پر ٹوٹ پڑا ہے ، مکمل گرہن کی مانند :
Because Muslims in India say, "Allah is our Lord," ruthless and brutal oppression has come upon them like a full eclipse.
یہ الفاظ نہ صرف واقعہ کے خلاف ہیں بلکہ وہ قرآن و حدیث کی نفی کے ہم معنی ہیں ۔ ہندستان میں مسلمانوں کی تعداد ۳۰۰ ملین بتائی جاتی ہے۔ یہ تعداد دور اول کے صحابہ و تابعین کی مجموعی تعداد سے بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر واقعۃ ً مسلمانوں کی اتنی بڑی تعدا د کو صرف اس لیے وحشیانہ طور پر ستایا جائے کہ وہ اللہ کو اپنا رب کہتے ہیں تو ناممکن ہے کہ کوئی ستانےوالا ان کو ستانے میں کامیاب ہو۔ ایسی صورت میں یقیناً اللہ کی غیرت جوش میں آئے گی اور پھر ظالموں کو زیر کر دیا جائے گا اور حق کی خاطر مظلوم ہو جانے والوں کو غلبہ عطا ہوگا۔
کیسے بے خبر ہیں وہ لوگ جو مخلوق کے ظلم کو جانیں مگر وہ خالق کے انصاف کو نہ جائیں۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو انسان کی طاقت کو جانیں مگر وہ خدا وند ذو الجلال کی طاقت سےبے خبر بنے ہوئے ہوں۔
صغیر اسلم صاحب کی یہاں کپڑے کی ایک بڑی دکان داسٹور ہے ۔ اس میں کپڑے کو رکھنے کے لیے انھیں خاص طرح کی الماریوں کی ضرورت تھی۔ اس سلسلہ میں ایک بڑھئی (Bobbie) ان کی دکان میں کام کر رہا تھا ۔ ۲۹ نومبر کی شام کو میں ان کے اسٹور میں گیا۔ میں نے بڑھئی کو کام کرتےہوئے دیکھا تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا : امریکی بڑھئی ہو نا ایک ایڈوانٹیج ہے۔
ہر قسم کی تیار شدہ لکڑی، ہر قسم کا عمدہ لوہے کا سامان، ان کو کاٹنے اور جوڑنے کے لیے ہر قسم کی دستی مشین ۔ اسکر یوگن (screw gun) وغیرہ بڑھئی کے پاس موجود تھیں ۔ وہاں کے ذریعہ اس طرح فینسی الماریاں بنارہا تھا جیسے کہ یہ کوئی خشک کام نہ ہو بلکہ ایک تفریحی عمل ہو۔ ترقی یافتہ ملکوں میں شراب اور جنسی آزادی جیسی خرابیاں بہت افسوسناک ہیں۔ مگرٹکنک کے اعتبار سے ان ملکوں میں اور ہندستان جیسے ملکوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مقابلہ میں ہم لوگ ابھی پتھر کے دور میں رہ ر ہے ہیں۔
ہندستان میں بے شمار تحریکیں ہیں جو تخریب کے کارنامے انجام دے رہی ہیں۔مگر کوئی ایک بھی ایسی تحریک نہیں جو حقیقی معنوں میں تعمیری مقاصد کے لیے سرگرم ہو ، جو ملک کو آگے لے جانے کی کوشش کرے۔ تحریکوں کے ہجوم میں تحریک کے فقدان کی یہ کیسی عجیب مثال ہے جو ہندستان میں پائی جاتی ہے۔
یہ ایک جدید طرز کا اسٹور تھا۔ یہاں میز پر نہایت شاندار چھپے ہوئے بہت سے کیٹلاگ رکھے ہوئے تھے۔ ان میں ملبوس مردوں اور عورتوں کی رنگین تصویروں کے ذریعہ کپڑوں کی نمائش کی گئی تھی۔ ایک صفحہ پر کپڑوں کی نمائش کرتے ہوئے یہ الفاظ درج تھے –––––– سنسنی خیز ، تمام نگا ہیں تمہارے اوپر :
Sensational... all eyes on you.
عام لوگ پرکشش کپڑے پہن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ لیڈروں کا طبقہ بھی یہی کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دوسرے لوگ خوش نما کپڑوں کے ذریعہ اپنے آپ کو دوسروں کی نظر میں قابلِ توجہ بناتے ہیں اور لیڈر لوگ خوشنما تقریروں کے ذریعہ ۔
مردوں اور عورتوں کے ایک مشترک اجتماع میں خطاب کا موقع ملا ۔ خطاب کے بعد کچھ سوالات سامنے آئے۔ ایک خاتون کی طرف سے ایک تحریری سوال آیا ، اس کا خلا صہ یہ تھا : جب کسی کے برے سلوک سے دل کو سخت رنج پہنچتا ہے تو اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔
میں نے سوچا کہ اس سوال کا جو اب تو قرآن و حدیث میں انتہائی واضح ہے۔ قرآن وحدیث میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر معافی اور در گذر سے کام لو ، تم اگر بندوں سے در گذر کرو تو خدا قیامت کے دن تم سے در گزر کا معاملہ فرمائے گا۔ ان واضح ہدایات کے باوجود کیوں ایک دین دار اور تعلیم یافتہ خاتون ایسا سوال پوچھ رہی ہیں۔
میری سمجھ میں آیا کہ اس کی تمام تر ذمہ دار ی موجودہ زمانے کے نااہل لیڈروں پر ہے۔ ان لیڈروں نے موجودہ زمانے میں جو سب سے بڑی دھوم مچائی وہ غیر اقوام کے برے سلوک پر فریاد و احتجاج کا مظاہرہ تھا۔ اسی قسم کی سطحی تقریروں اور تحریروں پر انھوں نے پوری قوم کو اٹھایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن و حدیث کی مذکورہ تعلیم پوری قوم کی نگا ہوں سے اوجھل ہو گئی۔ مسلمانوں کو صرف یہ سکھایا گیا کہ تمھیں اشتعال انگیزی پر مشتعل ہونا ہے۔ رنج کا تجربہ ہونے پر تم کو شدت کے ساتھ اس کے خلاف ردعمل کا اظہار کر نا ہے ۔ ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ قوم کے افراد قرآن کی ان تعلیمات کی اہمیت کو سمجھیں جن میں عفو و در گذر اور صبر و اعراض کی تلقین کی گئی ہے۔
روزنامہ آرنج کاونٹی رجسٹر (۳۰ نومبر ۱۹۹۰) کے پہلے صفحہ پر سنسنی خیز خبرتھی صدام حسین کو کویت سے نکل جانے کے لیے صرف ۴۷ دن :
Saddam has 47 days to get out
اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل نے تقریباً متفقہ طور پر یہ رزولیوشن پاس کیا ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین ۱۵ جنوری ۱۹۹۱ تک بلا شرط کو یت کا علاقہ خالی کر دیں ، ورنہ امریکہ کو حق ہو گا کہ وہ ان کے خلاف فوجی کارروائی کرے۔
اس خبر کو میں نے پڑھا تو میں نے سوچا کہ یہی معاملہ ہر انسان کا ہے ، حتی کہ خود مذکورہ الٹی میٹم دینے والوں کا بھی۔ ہر انسان جو اس دنیا میں اپنی زندگی بنارہا ہے ، اس کو خدا کی طرف سے قطعی آگا ہی دے دی گئی ہے کہ تمہارے لیے صرف"۴۷ دن " کا موقع ہے ۔ یا تو تم اس مدت میں اپنی سرکشی چھوڑ دو ، ورنہ تم کو خدا کی دنیا چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد تمہارے لیے بربادی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے سوا اور کوئی راستہ نہ ہوگا۔ لوگ دوسروں کے خلاف الٹی میٹم دینے میں مشغول ہیں، خود اپنے خلاف الٹی میٹم کی کسی کو خبر نہیں۔
امریکہ میں" پیپر ردی والا " جیسی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ کیونکہ یہاں اخباروں کو ردی میں بیچنے کا کوئی رواج نہیں ۔ یہاں اخبارات کا واحد استعمال یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد انھیں کوڑے میں ڈال دیا جائے ۔ جب کہ ہندستان میں آدمی اخبارات کو ردی میں بیچ کر ان کی تقریباً نصف لاگت واپس حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ میں اخبارات اور میگزین نہایت عام ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی قیمتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ یہاں اخبار والے صرف یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے اخبار کو پڑھیں۔ کیوں کہ ان کی قیمت تو انھیں ان کے مشتہرین ادا کر چکے ہوتے ہیں۔
یہاں میں روزانہ اخبار پڑھتا تھا۔ مگر پوری مدت میں یہاں کے اخبارات میں ہندوستان کی کوئی خبر پڑھنے کو نہیں ملی۔ سنگا پور جیسے چھوٹے ملکوں کی خبریں تھیں ۔ مگر ہندستان کی کوئی خبر نہیں۔ البتہ ہندستان میں کوئی بڑا فساد ہو جائے تو اس کی خبر ضرور یہاں کے اخباروں میں چھپتی ہے ۔ اس طرح کی خبریں یہاں کے لوگوں کو یہ تسکین فراہم کرتی ہیں کہ صرف ہمارا ساج مہذب سماج ہے۔ بقیہ دنیا میں وحشت و بربریت کے سوا اور کچھ نہیں ، اس اعتبار سے دیکھیے تو ہندستان کی انتہا پسند تحریکیں صرف ملک دشمنی کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ کیوں کہ وہ ایسی خبریں تخلیق کرنے میں مشغول ہیں جن کا دوسری قوموں کو نہایت شدت کے ساتھ انتظار ہے۔
۲۹ نومبر کو دوپہر کا وقت تھا۔ چاروں طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے یہاں کی گھڑی میں دیکھا تو وہ ساڑھے گیارہ بجے کا وقت بتار ہی تھی۔ اس کے بعد میری نظر اپنے ہاتھ کی گھڑی پر گئی تو اس میں ایک بجے کا وقت تھا۔ ایک لمحہ کے لیے یہ فرق عجیب لگا ۔ پھر خیال آیا کہ میری گھڑی میں دہلی کا وقت ہے۔ اور کیلی فورنیا اور دہلی کے وقت میں ساڑھے دس گھنٹہ کا فرق پایا جاتا ہے۔ اس وقت جب کہ میں کیلی فورنیا میں ساڑھے گیارہ بجے دن کی روشنی میں بیٹھا ہوا ہوں ، دہلی کے لوگ ایک بجے رات کے اندھیرے میں اپنے گھروں کے اندر سورہے ہوں گے۔ کیلی فورنیا میں آج ۲۹ نومبر کی تاریخ ہے ، مگردہلی کا انسان اس وقت نومبر کی ۳۰ تاریخ میں داخل ہو چکا ہے۔ کیلی فورنیا میں اس وقت تمام سرگرمیاں اپنے شباب پر ہیں ، جب کہ دہلی میں تمام انسانی سرگرمیاں رات کے سناٹے میں روپوش ہو چکی ہیں۔
زمین کی سطح پر رات اور دن کا یہ فرق سور ج کے سامنے زمین کی گردش سے پیدا ہوتا ہے۔ خلائے بسیط میں زمین کی یہ گردش اتنی حیران کن ہے کہ اس کے بارے میں سوچ کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور آدمی بے اختیار ہو کر سجدہ میں گر پڑے۔
انوار حسن صاحب (۴۵ سال) ایک امریکی کمپنی (GHG) میں کام کرتے ہیں۔ اتوار کے دن وہ رضا کارانہ طور پر ایک اسلامک سنٹر میں" سیکوریٹی "کی خدمات انجام دیتے ہیں ۔ کیونکہ اتوار کے دن اس سنٹر میں کافی مسلمان آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے جو مسلمان یہاں آتے ہیں ، وہ امریکیوں کے درمیان تو بہت با اصول طور پر رہتے ہیں۔ "سر" کہے بغیر ان سے بات نہیں کرتے ۔ مگر جب وہ اسلامک سنٹر میں آتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کسی جنگل میں آگئے ہیں۔
میں نے کہا کہ اس کی کوئی مثال دیجیے ۔ انھوں نے کہا کہ مثال کے طور پر جب وہ امریکی دفتروں میں جاتے ہیں تو وہاں وہ گاڑیوں کے قوانین کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے ہیں۔ مگر اسلامک سنٹر میں آتے ہی ان کا انداز بدل جاتا ہے ۔ پہلے سنڈے کو میں سنٹر کے گیٹ پر ڈیوٹی دے رہا تھا۔ ایک مسلمان اپنی مرسیڈیز پر آئے اور نکلنے والے دروازہ (exit) سے داخل ہونے لگے۔ میں نے روکا تو مجھ سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ اگر یہ بیان صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ موجودہ مسلمان (کم از کم ان کی اکثریت) اصول کے تحت باقاعدگی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ صرف ڈر کے تحت باقاعدہ بننا جانتی ہے۔
امریکہ کے مختلف شہروں میں اس وقت اسلامک سنٹر کے نام سے ایک ہزار سے زیادہ ادارے قائم ہیں۔ لیکن گہرائی کے ساتھ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ عملی حالت کے اعتبار سے یہ ادارے مسلم کلچرل سنٹر میں نہ کہ حقیقی معنوں میں اسلامک سنٹر۔ یہ مسلمانوں کی سماجی اور ثقافتی ضرورت کا اظہار ہیں نہ کہ اسلام کے اصولی اور دعوتی تقاضے کا اظہار۔
امریکہ کے شہروں میں آپ کو بس اور ٹرام اور ریلوے دکھائی نہیں دیں گی ۔ اس کے برعکس ان سڑکوں پر ہر وقت کاروں کا مشینی سیلاب بہتا رہتا ہے ۔ بظا ہر یہ تر قی کی علامت ہے ۔ لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھیے تو معلوم ہوگا یہ سرمایہ دارانہ استحصال ہے۔ یہاں کے سرمایہ دارمنظم طور پر یہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام قائم نہ ہونے پائے تاکہ ان کی کاریں زیادہ سے زیادہ فروخت ہوں۔ یہاں رہنے والا ایک شخص نہایت آسانی سے قسط وار ادائگی کی بنیاد پر ایک یا زیادہ کار خرید سکتا ہے ( اور اسی طرح دوسری تمام چیزیں بھی) اس طرح یہاں کا تقریباً ہر آدمی اپنی کمائی کا بہترین حصہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے اکاؤنٹ میں پہنچاتا ہے ، سامان کی ادھار خریداری کی صورت میں، نیز اس کے اوپر مستقل سود کی ادائگی کے ذریعہ ۔
قرض پر مبنی اس اقتصادیات کا سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ لوگوں کے پاس دین کی مد میں دینے کے لیے بہت کم رقم باقی رہتی ہے۔ بظا ہر یہاں کا ہر مسلمان کافی کمار ہا ہے مگردین کی مدوں میں تعاون دینے کے لیے وہ اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے۔
۲ دسمبر کو سین گیبریل (San Gabril Valley) کے اسلامک سنٹر میں تقریر کا پروگرام تھا۔ جناب عبد القادر النجار کے ساتھ یہ سفر طے ہوا۔ موصوف کا خاندان طائف سے آکر حلب (شام) میں آباد ہو گیا ۳۷ سال پہلے وہ حلب سے امریکہ آگئے۔ اب وہ یہاں کے شہری ہو چکے ہیں۔ وہ پر جوش حد تک دین پسند آدمی ہیں۔ جاتے اور آتے ہوئے مجموعی طور پر ۷۰ کیلو میٹر کا راستہ ان کے ساتھ گزرا۔
انھوں نے ایک واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا :قل الحق ولو على نفسك (حق بات کہو، خواہ ، وہ تمہارے اپنے خلاف کیوں نہ ہو) ایک اور واقعہ کے ذیل میں انھوں نے کہا : ان الله يُمهل ولا يُهْمِلُ( اللہ مہلت دیتا ہے مگر اللہ کبھی چھوڑتا نہیں )
روز نامہ آرینج کا ونٹی رجسٹر (۴ دسمبر ۱۹۹۰ )میں صفحہ اول پر ایک با تصویر خبر ہے ۔ تصویر میں ایک جہاز (DC-9) ٹوٹا ہوا پڑا ہے ۔ اس کو شعلے گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ہوائی حادثہ کا قصہ ہے جو امریکہ کی ریاست مشی گان میں ڈیٹرائٹ کے ہوائی اڈہ پر پیش آیا ۔ آٹھ مسافر فور اًمر گئے۔ بقیہ ۱۸۱ مسافروں میں کچھ زخمی ہونے ، اور کچھ پریشانی کی حالت میں باہر آئے۔
اس واقعہ کی رپورٹ دیتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ یہ واقعہ اس لیے پیش آیا کہ ایک جہاز (727) ائیر پورٹ کے کہر آلود رن وے (foggy runway) پرچلتے ہوئے دوسری طرف سے آنے والے جہاز کے راستہ میں داخل ہو گیا جو اڑنے والا تھا۔ اس کے بعد ایک جہاز کا پر دوسرے جہاز کے پر میں ٹکراگیا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس وقت ایئر پورٹ پر گہرا کہر چھایا ہو ا تھا :
One Northwest Airlines jet strayed into the path of another that was streaming toward takeoff and the two collided in heavy fog on a runway at Detroit Metropolitan Airport.
اس خبر کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ " کہر" کا مسئلہ ہر سفر میں پیش آتا ہے ، خواہ وہ مادی سفر ہو یا کوئی ذہنی سفر۔ آدمی اگر صرف روشن را ہوں میں چلنا جانتا ہو ، وہ کہر کے راستوں میں چلنے کے آداب نہ جانتا ہو تو اس کا یہی انجام ہوگا کہ وہ مخالف سمت سے آنے والی کسی"سواری" سے ٹکرا جائے گا۔ ایک آدمی اپنی آخری منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔
۶ دسمبر کو جب کہ کیلی فورنیا میں صبح سویرے کا وقت تھا اور دہلی میں شام کا ، مجھے دہلی سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے جناب صغیر اسلم صاحب سے کہا۔ انھوں نےاپنے ٹیلیفون پر حسب ذیل نمبروں کے بٹن دبائے:
611128-11-91-011
اس کے فور اً بعدد ہلی میں ہمارے دفتر میں گھنٹی بجنے لگی ۔ میں نے سوچا کہ جس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ کیلی فورنیا کا ایک انسان دہلی سے ایک انسان سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں رابطہ قائم کرلے ، اس دنیا میں کیا یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنے خالق سے رابطہ قائم کر سکے ۔ دل نے کہا کہ یقینی طور پر ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے اسی طرح صحیح تدبیر اختیار کرنی ہوگی جو کیلی فورنیا اور دہلی کے در میان ربط قائم کرنے کے لیے اختیار کی گئی۔ اس ربط کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ ہم مذکور ہ نمبروں کا اہتمام نہ کرتے بلکہ دوسرے غیر متعلق نمبروں پر اپنی انگلیاں مارنے لگتے۔ ایسی حالت میں ہماری کوشش بے فائدہ ہو جاتی ۔ اس کے بجائے ہم نے یہ کیا کہ صحیح ترین نمبر معلوم کر کے عین اسی نمبر کے ذریعہ ربط قائم کرنے کی کوشش کی۔ ایسا کرتے ہی فوراً ربط قائم ہو گیا۔
اسی طرح خدا سے ربط قائم کرنے کا بھی ایک "صحیح نمبر" ہے اور ایک"غلط نمبر" جو شخص خدا سے ربط قائم کرنے کی سنجیدہ خواہش رکھتا ہو ، اس کو چاہیے کہ پہلے اس کا "صحیح نمبر"معلوم کرے۔ ایسا کرنے کے بعد خدا سے اس کا ربط قائم ہونا اتنا ہی ممکن ہو جائے گا جتنا کیلی فورنیا اور دہلی کے درمیان ربط قائم ہونا ۔ یہ صحیح نمبر اپنی ذات کو حذف کرنا ہے ۔
جناب صفی قریشی صاحب نے ایک مجلس میں بہت اچھی مثال دی ۔ انھوں نے کہا کہ آجکل مصنوعی سٹلائٹ خلا میں بھیجے جاتے ہیں۔ یہ سٹلائٹ اوپر جاکر ۲۰۰ میل یا اس سے کم و بیش کی دوری پر زمین کے گرد گھومنے لگتے ہیں مگر ان کی عمر کی ایک مدت ہے ۔ ایک مدت گزرنے کے بعد وہ زمین کی کشش کے دائرہ میں آکر زمین کی طرف کھینچنے لگتے ہیں ۔ یہاں تک کہ نیچے آتے آتے ایک روز زمین پر گر پڑتے ہیں، اسی طرح انسان ایک مقرر مدت کے لیے اس دنیا میں آتا ہے ۔ اس کے بعد اس کا واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آخر کاروہ دوبارہ خدا کی طرف چلا جاتا ہے۔
۶دسمبر کو ظہر کی نماز کے بعد آخری بار میں یہاں کے پارک میں گیا۔ پارک کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ملی ہوئی سڑک سے ایک بہت بوڑھا امریکن جوڑا خاص طرح کی کھلی ہوئی چھوٹی گاڑی کو آہستہ چلاتا ہوا گزر رہا ہے ۔ میری نظر ان لوگوں کی طرف گئی تو مرد نے ہاتھ اٹھا کر ہائی (ہیلو ) کہا۔ میں پارک کے اندر داخل ہو رہا تھا اور وہ سٹرک پر چلتے ہوئے دوسری طرف جا رہے تھے ۔
اس واقعہ میں مجھے خود اپنا وداعی سفر دکھائی دینے لگا۔ میں نے کہا : کل مجھے یہاں سے جانا ہے اسی طرح ایک اور کل آئے گا جب کہ میں اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ پہلے سفر کی منزل معلوم ہے، مگر دوسرے سفر کی منزل معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ دوسرے سفر میں میرے اوپر کیا بیتنے والا ہے۔
کچھ دیر تک میں پارک میں بیٹھا۔ خوبصورت پارک ، سرسبز درختوں سے ڈھکے ہوئے مکانات ، ہوا کے خوش گوار جھونکے ، سٹرک پر پھسلتی ہوئی کاریں ، سورج کی سنہری روشنی میں اڑتے ہوئے ہوائی جہاز ، اس طرح کے مختلف مناظر کے درمیان میں نے سوچا کہ خدانے کتنی زیادہ نعمتیں انسان کو دے رکھی ہیں۔ لوگ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں ۔مگر کوئی نہیں جو ان بے پایاں نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ میری زبان سے بے ساختہ نکلا : خدایا ، میں ساری انسانیت کی طرف سے تیرا شکر ادا کر تاہوں تاکہ ان کے اوپر تیرا غضب نازل نہ ہو جائے۔
۴ دسمبر کو ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی صاحب کے ساتھ لاس اینجلیز گیا۔ وہاں کے اسلامک سنٹر میں چند گھنٹے گزارے۔ امریکی فوج کے تحت کیلی فورنیا میں ایک نشریاتی ادارہ (Armed Forces Radio & Television Broadcast Centre) عرصہ سے قائم ہے۔ اس کے نمائندہ کے طور پر مسٹر رچرڈ ڈیون پورٹ (Richard Davenport) وہاں آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے بتا یا کہ ان کا ادارہ مختلف قسم کے ویڈیو کیسٹ تیار کرتا ہے جو امریکی فوج کے لیے ٹیلیویژن پر دکھایا جاتا ہے ۔ یہ پروگرام امریکہ کی تمام فوجی تنصیبات (bases) پر دیکھا جاتا ہے۔
اس وقت امریکہ کی تقریباً چار لاکھ فوج خلیج عرب کے علاقہ میں ہے ۔ مزید فوج بھی وہاں بھیجی جاسکتی ہے۔ چنانچہ امریکی فوجی اسلام اور عرب کلچر کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خلیج میں امریکی فوجوں کی موجودگی سے ایک اچھی چیز یہ بر آمد ہوئی ہے کہ بہت سے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں :
The one good thing that came out of this armed forces presence in the Gulf is that many people are now interested to know more about Islam and Muslim people.
یہاں پر اسلامک انفارمیشن سروس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔ وہ ہر ہفتہ ایک ویڈیو ٹیپ تیار کر کے ٹیلیویژن کمپنی کو دیتا ہے اور اس کوٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔ مجھ سے انھوں نے ویڈیو پر ایک مفصل انٹرویو لیا۔ اس میں اسلام کے موجودہ مسائل اور امریکی مسلمان اور ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں سوالات تھے۔ میں نے کہا کہ ہندستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ نا اہل لیڈروں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں ملک میں لینے والے گروہ (taker-group) بن گئے ۔ ان کی حیثیت دینے والے گروہ(giver -group ) کی نہیں ۔ ان کے مسئلہ کا تحقیقی حل صرف یہ ہے کہ انھیں دوبارہ دینے والے گروہ کے مقام پر لایا جائے۔
مسٹر اسلم عبد اللہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ محمد مسلم صاحب مرحوم کے صاحبزادے ہیں ۔ یہاں وہ انگریزی میگزین (The Minaret) کے اڈیٹر ہیں۔ انھوں نے جو باتیں کہیں، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ "ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صحیح ڈائرکشن یہ ہے کہ وہ کنفرنٹیشن کو اوائڈ کرتےہوئے کام کریں"۔
۵ دسمبر کی شام کو اسلامک سوسائٹی آرنج کا ونٹی کے ہال میں ایک اجتماع میں شرکت کا اتفاق ہوا ۔ یہ مسلم ، مسیحی اور یہودی سیمینار (Trialogue) تھا۔ پہلے ایک یہودی عالم نے تقریر کی اور اپنے مذہب کی تعلیمات کا تعارف کرایا ۔ اس کے بعد ایک عیسائی عالم کھڑا ہوا ۔ اس نے اپنے مذہب کے بارے میں تفصیل سے بتایا ۔ آخر میں ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی (ڈائرکٹر اسلامک سوسائٹی آرنج کاؤنٹی) کھڑے ہوئے ، انھوں نے اسلام کا تعارف پیش کیا۔
ڈاکٹر صدیقی کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیت عطا کی ہے ۔ انھوں نے اسلام کا تعارف کرایا تو ان کی تقریر پچھلی دونوں تقریروں پر بھاری ہوگئی۔ لوگوں نے نہایت پسند کیا۔ میرے قریب کی سیٹوں پر چند امریکی نوجوان بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ Comparative religion (تقابلی مذہب ) کے طلبہ تھے۔ وہ اگر چہ مسیحی تھے اور امریکہ کی سفید فام نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ڈاکٹر صدیقی کی تقریر سننے کے بعد ایک نوجوان بے اختیار کہہ اٹھا کہ میں مسیحی ہوں ۔ مگر ڈاکٹر صدیقی کی تقریر نے مجھے اپنے عقیدہ کے بارے میں شک میں ڈال دیا ہے اور میں دوبارہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ مجھے اسلام کے بارے میں اور زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ وہ و اقعۃ ً غیر معمولی قسم کے لائق آدمی ہیں :
I am a Christian. But Dr. Siddiqi's presentation make me think twice. I have to learn more about Islam. He was terrific real genius.
ڈاکٹر صدیقی نے اپنی تقریر میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کا تعارف کراتے ہوئے آخر میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر چہ تمام مذاہب خدا کی طرف سے آئے۔ مگر آج تمام مذاہب میں محفوظ مذہب (Preserved religion) صرف ایک ہے، اور وہ اسلام ہے ۔ یہی اسلام کو پیش کرنے کا صحیح ترین طریقہ ہے۔ اسلامی دعوت میں ہمیں فروعی یا سیاسی باتوں کو چھوڑتے ہوئے صرف بنیادی تعلیمات کو پیش کرنا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی ترجیح بتانے کے لیے یہ نہیں کہنا ہے کہ اسلام افضل مذہب ہے۔ ہمیں ترجیح بتانے کے لیے صرف ایک بات کہنا ہے اور وہ یہ کہ اسلام ہی آج محفوظ مذہب ہے۔ دوسرے مذاہب تاریخی اعتبار سے محفوظ مذہب نہیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر صدیقی جیسے افراد کی رہنمائی میں اس قسم کی سنجیدہ کا نفرنسیں یورپ اور امریکہ میں کی جائیں تو ان کے ذریعہ زبر دست دعوتی فائدہ حاصل ہو گا۔ پروگرام کے مطابق آخر میں اختتامی کلمات مجھے کہنا تھا۔ مگر ڈاکٹر صدیقی کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعض وجوہ سے میں آخر وقت تک ٹھہر نہ سکا۔ میں خاتمہ سے پہلےچلا آیا۔
نیو یارک سے جناب کلیم الدین صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے یہ خوشی کی بات بتائی کہ وہ وہاں الرسالہ مشن کو پھیلا رہے ہیں ۔ ۴ دسمبر کی شام کو دوبارہ نیو یارک سے جناب محمد ابراهیم صاحب ( ۴۲ سال) کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کمپیوٹر انجنیئر ہیں اور ۱۸ سال سے نیو یارک میں مقیم ہیں ۔ وہ ۱۹۸۹ میں حج کے لیے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے دعا کی کہ خدایا ، مجھے دین کا علم عطا فرما۔ واپسی پر ان کی ملاقات کلیم الدین صاحب سے ہوئی۔ انھوں نے محمد ابراہیم صاحب کو الرسالہ پڑھنے کے لیے دیا۔ الرسالہ کو پڑھتے ہی انھیں محسوس ہوا کہ ان کی دعا قبول ہو گئی۔ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ کی صورت میں انھوں نے اس علم دین کو پالیا جو ان کی روح طلب کر رہی تھی۔ اب دونوں مل کر نیو یارک میں الرسالہ مشن کا کام کر رہے ہیں۔
میرے نزدیک مغربی دنیا میں سب سے بڑا اسلامی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی زبان میں صحیح اسلامی لٹریچر موجود نہیں۔ یہاں میں نے ۵۰ صفحہ کی ایک انگریزی کتاب دیکھی۔ وہ خاص طور پر غیر مسلموں میں اسلام کے تعارف کے لیے چھاپی گئی ہے ۔ اس کا نام تھا:
Introducing Islam to non-Muslims
اس کتاب میں جہاد کے عنوان کے تحت کہا گیا تھا کہ جہاد مقدس جنگ (Holy War)نہیں ہے ۔ مقدس جنگ کا تصور ایک مسیحی تصور ہے۔ اس کے بعد جہاد کی تشریح کرتے ہوئے درج تھا کہ جہاد صرف دفاعی جنگ بھی نہیں ۔ بلکہ وہ کسی بھی غیر منصفانہ حکومت کے خلاف جنگ کا نام ہے۔ اگر ایسی حکومت موجود ہے تو اس کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ جنگ لیڈروں کے خلاف ہوگی نہ کہ ملک کے عوام کے خلاف۔ عوام کو نا منصفانہ حکومت کے قبضہ سے نکالا جائے گا تا کہ وہ آزادانہ طور پر اللہ پر ایمان لا سکیں :
Jihad is not also a defensive war only, but a war against any unjust regime. If such a regime exists, a war is to be waged against the leaders, but not against the people of that country. People should be freed from the unjust regimes and influences so that they can freely choose to believe in Allah.
(باقی آئندہ)