صبر کا ہتھیار
۶ ستمبر ۱۹۸۰ کا واقعہ ہے۔ مسز کملیش (۲۲ سال ) شاہدرہ کی ایک سٹرک پر چل رہی تھیں۔ ان کے گلے میں سونے کی زنجیر تھی۔ اچانک اشوک نامی ایک شخص جس کی عمر ۲۵ سال تھی جھپٹا اور مسز کملیش کی زنجیر کھینچ کر بھاگا۔ پولیس کانسٹبل کشن چند تیاگی (۴۲ سال ) اس وقت ڈیوٹی پر گھوم رہے تھے ۔ کسی نے ان کو واقعہ کے بارے میں بتایا۔وہ تلاش کرتے ہوئے ایک بالمیکی مندر میں پہنچے جہاں مجرم موجود تھا۔ پولیس کی وردی دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ کشن چند نے اس کا پیچھا کیا۔ مجرم کے پاس ایک ریوالور تھا۔ اس نے فائر کیا تو اس کی گولی کشن چند کی آنکھ کے نیچے ان کے چہرہ اور گردن کو زخمی کر تی ہوئی گزرگئی۔ انھوں نے چلا کر کہا " ایک بار تو نے مجھے مار دیا۔ پر دوبارہ تو نہیں مار سکتا۔ مجھے معلوم نہیں تھا تیرے پاس ریوالور ہے" ۔ اب وہ چو کنا ہو گئے۔ مجرم نے دوبار اور گولی چلائی ۔ مگر ہر بار وہ نہایت پھرتی کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس کے وار کو خالی کر دیا۔ کشن چند کسی خوف کے بغیر تنہا مجرم کا پیچھا کرتے رہے جب کہ" دشمن " کے پاس ریوالور تھا اور ان کے اپنے پاس لاٹھی بھی نہیں تھی۔ دوڑتے دوڑتے آخر کار ساڑھے چارفٹ کی ایک چہار دیواری سامنے آگئی۔ مجرم اس پر کو دگیا ۔ کشن چند نے بھی فور اً چھلانگ لگائی اور دوسری طرف جا کراس کو پکڑ لیا۔
"ایک مسلح مجرم کو دوڑاتے ہوئے آپ کو ڈر نہیں لگا" ۔ ایک اخبار نویس نے کشن چند سے پوچھا "نہیں"۔ انھوں نے جواب دیا۔ "میں جانتا تھا کہ جب اس کا ریوالور خالی ہو چکا ہو گا تو میں اس کو پکڑ لوں گا"۔ مجرم کے پاس تین گولی تھی۔ کشن چند نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اس کی تینوں گولیاں خالی کرا دیں ۔ اب مجرم کا ہتھیار نا قابل استعمال ہو چکا تھا۔ کشن چند نے اس کو پکڑلیا (ہندستان ٹائمز ۷ ستمبر ۱۹۸۰)
اس چھوٹے سے واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ اکثر حالات میں حریف سے مقابلہ کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں اس کے وار کو خالی کر دیا جائے ، یہاں تک کہ اس کے ہتھیار کی "تین گولی "ختم ہو جائے ۔ پھر اس سے مقابلہ کرنا نہایت آسان ہو گا۔ مثلاً ایک شخص آپ سے طاقت ور ہے اور وہ آپ کی کسی بات پر برہم ہو جاتا ہے۔ جب وہ آپ کو ڈانٹنا اور بگڑنا شروع کرے تو ابتداءً آپ اس کے وار کو خالی کر دیں ، یعنی بالکل چپ ہو کر اس کی بات کو سنتے رہیں یہاں تک کہ جب اس کے الفاظ ختم ہو جائیں اور اس کی بھڑ اس نکل جائے ، اس وقت سنجیدگی کے ساتھ صورت حال کے بارے میں اس کو بتائیں۔ اگر آپ ابتداء میں اس قسم کا صبر دکھائیں تو آپ یقیناً کامیاب رہیں گے۔ کیوں کہ اب وہ اپنے ہتھیار کی "تین گولیاں" ختم کر چکا ہے اور اب بہت آسانی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ ہیں جو آپ کے خلاف متحد ہو کر آگئے ہیں اور آپ کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ غور کیجئے تو یہ اتحاد صرف اس بنیاد پر ہو گا کہ آپ ان کے سامنے ان کے حریف بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ حکمت عملی کا طریقہ اختیار کریں اور کچھ دیر کے لیے اپنے کونشانہ سے ہٹا دیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کا اتحاد ٹوٹ رہا ہے۔ ان کے اتحاد کے ہتھیار کی گولی آپ کا حریف بن کر کھڑا ہو نا تھا۔ جب آپ نے اپنے کو حریف کے مقام سے ہٹا دیا تو گویا آپ نے ان کی "تینوں گولیاں" خالی کرا دیں۔ اس کے بعد وہ اپنے آپ منتشر ہو جائیں گے اور جو گروہ اختلاف اور انتشار میں پڑ جائے اس کو ختم کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا گر وہ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے کو ختم کر لیتا ہے۔
کوئی حریف جب سامنے آتا ہے تو آدمی جوش میں آکر اس سے لڑنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہی مرحلہ میں وہ حریف کی طاقت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اگر آدمی صبر اور دانش مندی سے کام لے اور مقابلہ کے ابتدائی مرحلہ میں حریف کے وار کو خالی جانے دے تو بہت جلد ایسا ہوگا کہ حریف خود اپنی کارروائیوں کے نتیجہ میں اپنے کو غیر مسلح کر چکا ہوگا۔ یا درکھئے ، کوئی بھی شخص جو آپ کے مقابلہ میں آتا ہے اس کے پاس ہمیشہ "تین "ہی گولیاں ہوتی ہیں۔ لاتعداد گولیاں کسی کے پاس نہیں ہوتیں ۔ اگر آپ یہ ہوشیاری دکھائیں کہ مقابلہ کے آغاز میں کسی طرح اپنے کو نشانہ سے ہٹا لیں تو اس کے بعد یقینی طور پر ایسا ہوگا کہ دشمن اپنی "تین گولیوں "کو ختم کر کے خالی ہاتھ ہو چکا ہو گا۔ اب زیادہ بہتر طور پر وہ وقت آجائے گا کہ آپ اس کو زیر کر سکیں۔ یہ کامیابی ہر ایک حریف کے اوپر حاصل کی جاسکتی ہے۔ بشر طیکہ مقابلہ پیش آنے کے بعد آدمی اپنے حو اس کو نہ کھوئے۔
خدا جلدی نہیں چاہتا
ایک شخص اپنے عیسائی دوست سے ملنے گیا۔ جب وہ دوست کے یہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے سامنے بے تابی کے ساتھ ٹہل رہے ہیں۔ "آج میں آپ کو پریشان دیکھ رہا ہوں ، آخر کیا بات ہے"۔ اس نے پوچھا۔ عیسائی دوست اچانک سنجیدہ ہوگئے۔ انھوں نےکہا:
I am in hurry, but God isn't
میں جلدی چاہتا ہوں۔ مگر خدا جلدی نہیں چاہتا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے صحن میں ایک مرجھائے ہوئے آم کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : میں نے اس کو بڑی امیدوں کے ساتھ پچھلے ہفتہ لگایا تھا ۔ مگر اب وہ سوکھ کر ختم ہو چکا ہے۔
"یہ درخت تو کافی بڑا ہے، پھر ایک ہفتہ پہلے کیسے آپ نے اس کو لگایا تھا "۔ آدمی نے پوچھا ۔" یہی تو اصل بات ہے" ۔ عیسائی دوست نے کہا "میں نے چاہا کہ میں اچانک ایک بڑا درخت اپنے یہاں کھڑا کر دوں۔ مگر خدا کی اس دنیا میں ایسا ہو نا ممکن نہیں۔ میں نے آم کا چھوٹا پودا بونے کے بجائے یہ چاہا کہ پانچ سال کا درخت لاکر اپنے صحن میں لگاؤں اور اس طرح پانچ سال کا سفر ایک دن میں طے کرلوں ۔ میں نے درخت تو کہیں نہ کہیں سے لاکر لگا لیا۔ مگر وہ اگلے ہی دن سوکھ گیا۔ اور اب اس کی جو صورت ہے وہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔
اس کے بعد عیسائی دوست نے کہا : اس دنیا میں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے خدا کا ایک قانون ہے۔ ہم اس قانون کی پیروی کر کے ہی اس چیز کو اپنے لیے وجود میں لاسکتے ہیں۔ اگر ہم قدرت کے اصول کی پیروی نہ کریں اور اپنی خواہشوں پر چلنے لگیں تو ہمارے حصہ میں "سوکھا درخت " آئے گا نہ کہ "ہرا بھرا باغ" ۔
لکڑی کی ایک کشتی کی تاریخ اگر چھوٹے پودے سے شروع کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر کشتی والا انتظار کرتا ہے کہ قدرت ایک درخت اگائے۔ زمین و آسمان کے تمام انتظامات اس کو پروان چڑھانے کے لیے وقف ہوں ۔ یہ کام سوبرس تک ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب مسلسل عمل کے نتیجہ میں ننھا پودا پتہ درخت کی عمر کو پہنچ جاتا ہے، اس وقت کشتی و ال اس کو کاٹتا ہے ۔ اس کے تنے بناتا ہے اور پھر ان تختوں کو لوہے کی کیلوں سے جوڑ کر و ہ کشتی تیار کرتا ہے جو انسانی قافلوں کو پانی کے اوپر سفر کرنے کے قابل بنائے۔
ذاتی معاملات میں ہر آدمی اس بات کو جانتا ہے ۔ مگر جب ملت کا معاملہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ فی الفور ایک عظیم الشان کشتی دریا میں اتار دے۔ خواہ اس کے پاس کشتی کے نام سے کاغذ کی ناؤ ہی کیوں نہ ہو۔
یا درکھیے ، یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ اس کو خدا نے بنایا ہے۔ اور وہ اسی خدا کے قانون کے تحت چل ر ہی ہے۔ ہم اس سے موافقت کر کے اپنی زندگی کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اس کے ساتھ موافقت نہ کریں تو ہمیں اس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔
جس طرح درخت تدریج کے ساتھ اگتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی کے معاملات بھی تدر یج کے ساتھ درست ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلےقدرت کے اس تدریجی قانون کو جانیے اور اس کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اپنا سفرشروع کیجیے۔ اس کے سوا اس دنیا میں کا میا بی کا کوئی اور راستہ نہیں ۔ بقیہ تمام راستےکھڈ کی طرف جاتے ہیں نہ کہ کسی منزل کی طرف۔
قرآن میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے۔ صبر کا مطلب بے عملی نہیں، صبر در اصل منصوبہ بند عمل کا دوسرا نام ہے ۔ بے صبر آدمی فوری رد عمل کے تحت بے سوچے سمجھے کارروائی کرتا ہے ۔ اس کے برعکس صبر والا آدمی اپنے جذبات کو روک کر پورے معاملہ پر غور کرتا ہے۔ وہ اپنی طاقت اور دوسرے کی طاقت کا اندازہ کرتا ہے۔ وہ حالات کا جائزہ لیتا ہے۔ وہ قانون قدرت کو سمجھتا ہے جس کے دائرے میں اس کو اپنا عمل کرنا ہے۔
اسی طرح سوچ بچار کے بعد عمل کا نقشہ بنانے کے لیے اپنے جذبات کو تھامنا پڑتا ہے، اس لیے اس کو شریعت میں صبر کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اسی کو منصوبہ بند عمل کہتے ہیں۔ اس دنیا میں صابرانہ عمل ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے ، اور غیر صابرانہ عمل ہمیشہ ناکام ۔