مفتاح عظیم

ایک عربی پرچہ میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس کا عنوان تھا:المفتاح العظيم )عظیم کنجی) اس میں بتایا گیا تھا کہ  "دعوت " اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔ ماضی میں اسلام نے دعوت کے ذریعہ عالمی فتح حاصل کی تھی ، آج بھی ہم دعوت کے ذریعہ دوبارہ اپنی شکست کو فتح میں تبدیل سکتے ہیں۔

اسی کے ساتھ اس پر چہ میں ایک اور چھ صفحات کا مضمون تھا۔ اس کا عنوان تھا :الأقلیات المسلمة تواجه خطر الذوبان ( مسلم اقلیتوں کو بھیڑیوں کے خطرہ کا سامنا) اس مضمون میں،جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ، یہ دکھا یا گیا تھا کہ جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں اکثریتی فرقہ اور اکثریتی فرقہ کی حکومت ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کر رہی ہے ، وہ ان کے ساتھ وحشی بھیڑیوں جیساسلوک کر رہی ہے۔

یہ دونوں باتیں مذکورہ جریدہ کے ایک ہی شمارہ میں چھپی ہوئی تھیں ، حالاں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ وہ قومیں جن کو اس مضمون میں بھیڑیا (ذوبان ) کہا گیا ہے ، وہ کون ہیں وہ وہی غیر مسلم قومیں ہیں جن کے اوپر ہمیں دعوت کا کام کرنا ہے۔ وہ ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ گویا  "مسلم اقلیتیں "داعی ہیں اور ان کی پڑوسی غیر مسلم اکثریتیں مدعو ۔ اب اگر داعی کے دل میں یہ بٹھایا جائے کہ مدعو تمہارے لیے ظالم بھیڑیا ہے تو کیا وہ سچے داعیانہ جذبہ کے ساتھ اپنے مدعو کے اوپر  دعوت کا عمل جاری کر سکتا ہے۔ کیا وہ إنی لکم ناصح کی نفسیات کے ساتھ اس سے معاملہ کر سکتا ہے۔

دعوت سرتا سر محبت کا ایک عمل ہے۔ داعی کو آخر حد تک اپنے مدعو کی ہدایت کا حریص بننا پڑتا ہے ، اس کے بعد ہی دعوت کے عمل کا آغاز ہوتا ہے ۔ مدعو اگر زیادتی کرے تب بھی داعی اس کی زیادتیوں کو بھلا کر یک طرفہ طور پر اس کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنا تا ہے ۔ وہ اپنے دل کو مدعو کی شکایات سے اتنا زیادہ خالی کرتا ہے کہ اس کے دل سے مدعو کے حق میں دعائیں نکلنے لگیں۔

لوگ دعوت کی باتیں کرتے ہیں مگروہ اس کے آداب نہیں جانتے ۔ لوگ داعی کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اس کے تقاضے کو پورا کریں۔ لوگ شہادت علی الناس کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، بغیر اس کے کہ انھوں نے اس کی قیمت ادا کی ہو ۔

یہ صرف ان ملکوں کا معاملہ نہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ ٹھیک یہی نفسیات ان ملکوں کے مسلمانوں کی بھی ہے جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے یا جہاں پوری کی پوری آبادی مسلمان ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقلیتی علاقہ کے مسلمانوں کو مقامی غیر مسلم طاقت سے شکایت ہے ۔ اور اکثریتی علاقہ کےمسلمانوں کو عالمی غیر مسلم طاقتوں سے۔ مثلاً یہودی ، عیسائی، اشتراکی مستعمرین، مستشرقین و غیره ۔

 اسلام میں دعوت کی مصلحت ہر دوسری مصلحت پر مقدم ہے۔ دعوت کے مفاد کی خاطر ہر دوسری چیز کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے ، خواہ وہ بذات خود کتنی ہی زیا دہ سنگین اور کتنی زیادہ اہم کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس معاملہ میں اتنی واضح رہ نمائی کر تی ہے کہ طالب حق کے لیے ادنی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔

 ہجرت سے کچھ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ حد در جہ توہین و تذلیل کا سلوک کیا جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجو د ہے ۔ حتی کہ آپ نے خود حضرت عائشہ سے فرمایا کہ طائف کے دن سے زیادہ سخت دن میرے اوپر کوئی اور نہیں گزرا۔ روایات بتاتی ہیں کہ جب آپ غم اور تکلیف کے ساتھ طائف سے واپس ہوئے تو راستہ میں اللہ کے حکم سے ملک الجبال (پہاڑوں کا فرشتہ ) آپ کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں ، میں ملک الجبال ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کے ذریعہ اس بستی کو کچل ڈالوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ، میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی اگلی نسلوں سے ایسا شخص پیدا کرے گا جو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے بَلْ أَرْجُو ‌أَنْ ‌يُخْرِجَ ‌اللهُ ‌مِنْ ‌أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ۔(صحيح البخاري،حدیث  نمبر  ۳۲۳۱)

دعوت بلاشبہ مفتاح عظیم ہے، مگر اس مفتاح عظیم کو استعمال کرنے کے لیے قلب عظیم درکار ہے، اس کے لیے وہ کردار مطلوب ہے جس کو قرآن میں بلند اخلاق (خلق عظیم )کہا گیا ہے۔ قلب عظیم کے بغیر کوئی آدمی نہ تو وقت کے امکانات کو جان سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر وہ اس قابل ہو سکتا کہ وہ ان امکانات کو استعمال کر سکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom