ایسا کیوں
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ ، أَنَّ رَجُلًا شَتَمَ أَبَا بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ -صلى اللَّه عليه وسلم- جَالِسٌ يَتَعَجَّبُ وَيَتَبَسَّمُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَدَّ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ -صلى اللَّه عليه وسلم- وَقَامَ، فَلَحِقَهُ أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَانَ يَشْتُمُنِي وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ غَضِبْتَ وَقُمْتَ؟ قَالَ: "كَانَ مَعَكَ مَلَكٌ يَرُدُّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَيْهِ وَقَعَ الشَّيْطَانُ" (مسند أحمد،حدیث نمبر۹۶۲۴) (مشكاة المصابيح،حدیث نمبر ۵۱۰۲)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکر کو برا کہا( حضرت ابو بکر چپ رہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ تعجب کر رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ پھر جب اس شخص نے بہت زیادہ کہا تو حضرت ابو بکر نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا۔ آپ وہاں سے اٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر چل کر آپ سے ملے اور کہا کہ اے خدا کے رسول وہ آدمی مجھ کو برا کہہ رہا تھا اور آپ وہاں بیٹھے ہوئے تھے ( اور خوش تھے) لیکن جب میں نے اس کی بعض بات کا جواب دیا تو آپ غصہ ہو گئے اور وہاں سے اٹھ گئے ۔ آپ نے فرمایا کہ (جب تم چپ تھے) تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو اس کا جواب دے رہا تھا مگر جب تم نے خود اس کی بات کا جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آگیا۔
ایک آدمی آپ کو برا کہے ۔ اس کے جواب میں آپ بھی اس کو برا کہیں تو بات بڑھتی ہے۔ جس آدمی نے پہلے صرف ایک سخت لفظ کہا تھا۔ اس کے بعد وہ سب وشتم پر اتر آتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ پاؤں سے آپ کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ آخرمیں پتھر اٹھا لیتا ہے ۔ آپ کا جواب نہ دینا اس کو ابتدائی حد پر روک دیتا ہے ، اور آپ کا جواب دینا اس کو اس کی آخری حد پر پہنچا دیتا ہے ۔
اس کے بجائے اگر ایسا ہو کہ ایک شخص آپ کو برا کہے یا گالی دے مگر آپ خاموش ہو جائیں۔ آپ اشتعال انگیز کلام کے باوجود مشتعل نہ ہوں ، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کا لہجہ آہستہ آہستہ دھیما ہورہا ہے۔ اس کے غبارے کی ہوا نکلنا شروع ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ اپنے آپ چپ ہو جائے گا۔ آپ کا بولنا دوسرے کو مزید بولنے پر آمادہ کرتا ہے، اور اگر آپ چپ ہو جائیں تو آپ کا چپ ہونا آخر کار دوسرے شخص کو بھی چپ ہونے پر مجبور کر دے گا۔
دونوں صورتوں میں یہ فرق کیوں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب برا کرنے والے کا جواب برائی سے دیا جائے تو اس کے اندر رد عمل کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اب شیطان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس کی انا کو جگائے۔ وہ اس کے غصہ کو بڑھا کر اس کو آخری در جہ تک پہنچادے۔ وہ برائی جو اس کے اندر سوئی ہوئی تھی، وہ پوری طرح جاگ کر آپ کے بالمقابل کھڑی ہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس جب برا کرنے والے کے ساتھ اعراض کا معاملہ کیا جائے تو اس کے اندر خود احتسابی کی نفسیات جاگتی ہے ۔ اب فرشتہ کو موقع ملتا ہے کہ وہ آدمی کی فطرت کو بیدار کرے۔ وہ اس کے ضمیر کو متحرک کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اس کے اندر شرمندگی کا جذبہ پیدا کرے وہ اس کو اپنی اصلاح پر ابھارے ۔
پہلی صورت میں آدمی شیطان کے زیر اثر چلا جاتا ہے اور دوسری صورت میں فرشتہ کے زیر اثر ۔ ایک واقعہ کی صورت میں دوسرے کو ملزم ٹھہرا کر اس سے انتقام لینے کے جذبات بھڑکتے ہیں اور دوسرے واقعہ کی صورت میں اپنے کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی اصلاح کرنے کےجذبات بیدار ہوتے ہیں۔
ہر آدمی کے سینہ میں دو طاقتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک طاقت آپ کی موافق ہے جس کی نمائندہ آدمی کا ضمیر ہے۔ دوسری طاقت آپ کی مخالف ہے۔ اس کی نمائندہ آدمی کی انا ہے۔ اب یہ آپ کے اپنے اوپر ہے کہ آپ دونوں میں سے کس طاقت کو جگاتے ہیں۔ آپ اپنے قول وعمل سے جس طاقت کو جگائیں گے وہی آپ کے حصہ میں آئے گی۔
ایک طاقت کو جگانے کی صورت میں فریق ثانی آپ کا دشمن بن جائے گا۔ اور اگر آپ نے دوسری طاقت کو جگایا تو خود فریق ثانی کے اندر ایک ایسا عنصر نکل آئے گا جو آپ کی طرف سےعمل کر کے اس کو آپ کے مقابلہ میں مغلوب و مفتوح بنا دے۔
مذکورہ واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی پر غصہ نہیں ہوئے جو بد کلامی کر رہا تھا۔ مگر حضرت ابو بکر صدیق کی زبان سے برا کلمہ نکلا تو آپ غصہ ہو گئے۔ گدھے کے لیے شریعت میں اعراض کا اصول ہے اور انسان کے لیے امر بالمعروف کا اصول۔