اسلامی طریقہ
قرآن میں جن گھریلو مسائل کا ذکر ہے، ان میں سے ایک نشوز ہے۔ نشوز کا لفظی مطلب ہے سراٹھانا۔ نشوز کا اظہار مرد اور عورت دونوں کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ اس فعل کا ظہور مرد کے مقابلہ میں عورت کی طرف سے ہو تو اس کا مطلب شوہر کی نافرمانی ہوتا ہے۔ اور اگر وہ عورت کے مقابلہ میں مرد کی طرف سے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شوہر اپنی بیوی کا حق ادا نہیں کر رہا ہے ۔
نشوز کی صورت پیش آنے کے بعد عورت اور مرد کے باہمی تعلقات بگڑ جاتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو کیا کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں قرآن میں ہدایت دی گئی کہ سب سے پہلے دونوں آپس میں بات چیت کے ذریعہ اصلاح کی کوشش کریں (النسا ء: ۱۲۸)
اگر آپس کی بات چیت سے تعلقات درست نہ ہوں تو دوسرے مرحلہ میں یہ کرنا چاہیے کہ دونوں خاندانوں سے ایک ایک شخص کو بطور حکم مقر کیا جائے۔ دونوں خیر خواہی کے انداز میں کوشش کر کے معاملہ کو داخلی سطح پر طے کرنے کی کوشش کریں (النساء: ۳۴) اگر یہ دوسری کوشش بھی ناکام ہو جائے تو تیسرے مرحلہ میں معاملہ کو بیرونی عدالتی ادارہ (قضا) کے سپرد کر دیا جائے۔
اس تعلیم کا براہ راست تعلق شوہر اور بیوی کے نزاع سے ہے ۔مگر اس سے شریعت کا مزاج معلوم ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب دو انسان یا دو گروہ کے درمیان کوئی جھگڑے کی صورت پیدا ہو تواس وقت جھگڑے کو حل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس طریق عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاملہ کو محدود دائرہ میں رکھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اولا ًیہ کوشش ہونی چاہیے کہ جن چند آدمیوں کے درمیان مسئلہ پیدا ہوا ہے، انہیں کے درمیان اس کو باقی رکھا جائے اور اس کے دائرہ کو آخری حد تک محدود رکھتے ہوئے اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اگر بالفرض ساری تدبیروں کے باوجود یہ ابتدائی کوشش ناکام ہو جائے تب بھی معاملہ کو پھیلایا نہ جائے۔ اس کے بعد بھی صرف قریبی افراد کو شریک کر کے اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر قریبی اور متعلق افراد کی کوشش بھی اس کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہو تو اس وقت جائز ہے کہ اس کو عدالت یا اور کسی خارجی ادارہ کے سپرد کیا جائے۔