قول سدید

قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان والو ، اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو ۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی (الاحزا ب: ۷۰-۷۱)

اس آیت میں اہل ایمان کو قول سدید کا حکم دیا گیا ہے ۔ قول سدید سے مراد ہے بالکل ٹھیک بات، عین مطابق واقعہ بات۔ ایسے کلام کا انجام یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے تم کو اصلاحِ اعمال کا فائدہ ہوگا۔

اجتماعی زندگی میں بار بار ایک شخص کو دوسرے آدمی کے بارے  میں کوئی بیان دینا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر آدمی اگر وہی بات کے جوفی الواقع ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کہنے والے کے اندر سنجیدہ مزاج بنے گا۔ نفسیاتی تضاد سے پاک شخصیت اس کے اندر پرورش پائے گی ۔ اس کے سینہ کے اندر دوسروں کے بارے  میں خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے ۔ اور جب کہنے والے کا یہ حال ہو گا تو دوسرے لوگ بھی اس کا مثبت اثر لیں گے۔ اس طرح پور اسماج صحت مند سماج بن جائے گا۔ بغض ، حسد ، کینہ، انتقام، نفرت، عیب جوئی جیسی برائیوں کی جڑ کٹ جائے گی ۔ حقیقت پسندی اور صدق بیانی کا ماحول ہر طرف قائم ہو جائے گا۔

اس کے برعکس اگر ایسا ہو کہ لوگ غیر سدید قول اپنی زبان سے نکالیں تو سارا معاملہ بالکل الٹا ہو جائے گا۔ اب کہنے والے کے اندر منفی مزاج پرورش پائے گا۔ وہ دہری شخصیت کا انسان بن جائے گا۔ ذاتی معاملات کے لیے اس کی سوچ کچھ ہو گی اور دوسروں کے معاملات کے لیے اس کی سوچ کچھ۔ اس کے اندر سازشی ذہنیت بنے گی ، اس کا سینہ جھوٹے افکار کی تخلیق کا کارخانہ بن جائے گا۔ اور جب فرد کے اندر ایسا ہو گا تو پورا معاشرہ بھی اسی ڈھنگ پر بننا شروع جو جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں ہر طرف منافقت کی فضا پیدا ہوگی۔ انصاف پسندی کے بجائے تعصب اور حقیقت بیانی کے بجائے غیر سنجیدہ کلام کا عام رواج ہو جائے گا جو آخر کار پورے معاشرہ کو فاسد معاشرہ بنا دے گا ۔

سدید کلام اور غیر سدید کلام کی ایک مثال وہ ہے جو زید بن حارثہ کے واقعہ کے ذیل میں سامنے آئی۔ زید بن حارثہ کی حیثیت مدینہ میں غلام کی تھی، اور زینب بنت جحش بنو ہاشم کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان نکاح کر دیا۔ مگر مذکورہ فرق کی بنا پر دونوں میں نباہ  نہ ہو سکا اور آخر کار طلاق ہوگئی۔ طلاق کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے نکاح فرمالیا۔

اس واقعہ کو بتانے کے لیے " قول سدید " کا انداز یہ تھا کہ یہ کہا جائے کہ زینب جو کہ مطلقہ ہو چکی تھیں ، ان سے عدت گزارنے کے بعد پیغمبر اسلام نے نکاح کر لیا اور ان کو شرعی طور پر اپنی ازواج میں شامل کر لیا۔مگر مدینہ کے منافقین نے اس واقعہ کو غیر سدید انداز میں بیان کر نا شروع کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام کو زینب پسند آگئی تھیں۔ اس لیے انھوں نے تدبیر کر کے ان کو طلاق دلوایا اور پھر پیشگی منصوبہ کے مطابق خود ان سے نکاح کر لیا۔

مدینہ کے منافقین نے اس واقعہ کو جس طرح پیش کیا وہ ایک صحیح واقعہ کو غلط شکل میں بیان کرنا ہے۔ یہ غیر سدید کلام اپنی زبان سے نکالنا ہے۔ اور غیر سدید کلام اپنی زبان سے نکالنا بلاشبہ بہت بڑا جرم ہے۔ ایسا ایک کلام آدمی کے تمام اعمال کو حبط کر سکتا ہے۔ اس سے آدمی کی اپنی روح بھی گندی ہوتی ہے اور اگر ایسی بات سماج میں پھیل جائے تو وہ سماج کو بھی فساد اور بگاڑ کی طرف لے جانے کا سبب بن جائے گی۔

قول سدید( الاحزاب: ۷۰) کے معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک اور مثال لیجیے ۔ ابو الفداء الحافظ ابن کثیر نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے تذکرہ کے ذیل میں لکھا ہے :

وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّهُ كَانَ ‌يَنْقِمُ عَلَى مُعَاوِيَةَ أَرْبَعَةَ أَشْيَاءَ، قِتَالَهُ عَلِيًّا، وَقَتْلَهُ حُجْرَ بْنَ عَدِيٍّ، وَاسْتِلْحَاقَهُ زِيَادَ بْنَ أَبِيهِ، وَمُبَايَعَتَهُ لِيَزِيدَ ابْنِهِ ( البداية والنهاية ١٣۹/٨)

 حسن بصری کے بارے  میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ چارچیزوں کے لیے معاویہ پر سخت کراہت کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا علی سے لڑنا ، ان کا حجر بن عدی صحابی کو قتل کرنا ، ان کا زیاد بن ابیہ کو اپنے نسب میں ملانا، اور ان کا اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت لینا۔

اس واقعہ کو بیان کرنے کا ایک اندازیہ ہے کہ اس کو بتانے کے لیے وہی الفاظ بولے جائیں جوابن کثیر نے نقل کیے ہیں ۔ یعنی یہ کہا جائے کہ امام حسن بصری نے امیر معاویہ کی چار باتوں سے عدم اتفاق کا اظہارکیا ہے ۔ یہ قول سدید کا انداز ہے۔ اگر ایسا کہا جائے تو اس سے کسی قسم کی کوئی خرابی واقع نہ ہوگی۔

اس کے برعکس دوسرا انداز یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ" حسن بصری صحابہ کرام پر جارحانہ تنقید کرتے تھے "۔ یہ دوسرا کلام غیر سدید قول کی مثال ہے۔ کیوں کہ وہ ایک واقعہ کی تعمیم ہے۔ وہ ایک سادہ بات کو سنگین بات بنا کر پیش کرنا ہے۔ ایسا قول خود کہنے والے کے لیے بھی جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور سننے والوں کے اندر بھی وہ غلط اثرات پیدا کرنے والا ہے۔

دونوں جملوں میں بظاہر صرف چند الفاظ کا فرق ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں آسمان اورز مین کا فرق ہے۔ حتی کہ ایک جملہ بولنا پوری طرح جائز ہے ، اور دوسرا جملہ بولنا پوری طرح نا جائز۔

 آدمی کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ اس کی پوری شخصیت کے ترجمان ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ مذکورہ دونوں جملوں کا ہے۔ پہلاجملہ سنجیدہ ذہن  کا پتہ دیتا ہے اور دوسرا جملہ غیر سنجیدہ ذہن کا۔ پہلے جملہ میں احتیاط کی نفسیات جھلکتی ہے اور دوسرے جملہ میں بے احتیاطی کی نفسیات۔ پہلے جملہ میں معاملہ کو جیسا ہے ویسا ہی بیان کیا گیا ہے اور دوسرے جملہ میں اس کو خود ساختہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلا جملہ حقیقت پر مبنی کلام ہے اور دوسرا جملہ حقیقت سے ہٹا ہوا کلام۔

پہلا جملہ خدا سے ڈرنے والے انسان کا کلام ہے اور دوسرا جملہ خدا سے نہ ڈرنے والے انسان کا کلام ۔پہلا جملہ منصفانہ قول کا نمونہ ہے اور دوسرا جملہ ظالمانہ قول کا نمونہ۔ پہلا جملہ بولناشرعی اعتبار سے کوئی جرم نہیں، مگر دوسرا جملہ بولنے والا یقینی طور پر شریعت کی نظر میں اپنے آپ کو مجرم ثابت کرتا ہے۔ حسن بصری نے تو کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ صحابہ کرام کی جماعت پر جارحانہ تنقید کریں۔ انھوں نے صرف ایک صحابی کی بعض روش سے اظہار اختلاف کیا ، جو ان کے نزدیک ، دوسرے صحابہ کی روش سے ہٹی ہوئی تھی۔

مگرجب ایک شخص اس طرح کہے کہ "حسن بصری صحابہ کرام پر جارحانہ تنقید کرتے ہیں  "۔ تو خود یہ کہنے والا یقینی طور پر  "جارحانہ تنقید " کا مجرم بن گیا۔ کیوں کہ جو الزام مخاطب کے اوپر چسپاں نہ ہو وہ خود متکلم کی اپنی طرف لوٹ آتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom