انسان در کار ہیں
ستمبر ۱۹۸۹ کا واقعہ ہے ۔ ایک بیرونی سفر کے دوران میری ملاقات کچھ عرب نوجوانوں سے ہوئی۔ مجلس میں الجزائر کے ایک نوجوان تھے۔ وہ پہلے اخوانی طرزفکر سے متاثر تھے، اس کے بعد انھوں نے راقم الحروف کی تحریریں پڑھیں ۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ آپ کی باتوں سے مجھے اتفاق ہے ۔ مگر میری سمجھ میں اب تک یہ نہ آسکا کہ آپ کا عملی پروگرام کیا ہے ۔
مذکورہ نوجوان کی بات سن کر میں نے کہا : برنامجنا هو إعداد المبرمجين (ہما را پروگرام یہ ہے کہ ہم پروگرام بنانے والے انسان تیار کریں) الر سالہ فروری ۱۹۹۰ ، صفحہ ۴۰
موجودہ زمانہ اسلام کے احیاء کازمانہ ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اسلام کو دوبارہ ایک زندہ اور غالب طاقت کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ اس احساس کے تحت موجودہ زمانے میں سیکڑوں بڑے بڑے رہنما اٹھے۔ ہر ایک کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے ہر ایک کی کوششیں صفر ہو کر رہ گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے "عملی پروگرام" سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ مگر عملی پروگرام سے کام کا آغاز کرنا ایسا ہی ہے جیسے باغ لگانے کا آغاز پھل کاٹنے سے کیا جائے۔
اسلام کا احیاء ایک بے حد سنجیدہ اور بے حد دور رس کام ہے ۔ یہ کام دھواں دھار جلسوں اور پرشور اقدامات کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے سب سے پہلے افرادِ کار مطلوب ہیں ۔ اس کے لیے ایسے باشعور افراد کی ضرورت ہے جو خود اپنی ذات میں پروگرام ساز ہوں جو اپنے حالات کو سمجھ کر خود کام کا منصوبہ بنائیں۔ جب تک ایسے افراد تیار نہ ہو جائیں، عملی پروگرام یا عملی اقدام کی حیثیت بے فائدہ چھلانگ کے سوا اور کچھ نہیں۔
سطحی لوگ مظاہرہ کو کام سمجھتے ہیں ۔ اس لیے جب بھی کوئی شخص مظا ہراتی ہنگامے کرتا ہے تولوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کام کر رہا ہے۔ حالانکہ اس قسم کا کام بے فائدہ اچھل کو دہے۔ اس کا کوئی حقیقی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں ۔ زندگی میں اصل اہمیت افراد کی ہوتی ہے ۔ اس لیے اصل کام یہ ہے کہ افرادتیار کیے جائیں۔ اسلام کے احیاء کا کام اس سے زیادہ وسیع ہے کہ وہ کسی لگے بندھے پروگرام کے ذریعہ انجام پاسکے۔ اس کے لیے ایسے ذہن درکار ہیں جو خود اپنی ذات میں پروگرام ساز ہوں، جو یہ صلاحیت رکھتے ہوں کہ حالات کے مطابق خود صحیح فیصلہ لیں اور اس کو بر روئے کار لانے کی تدبیر اختیار کریں۔