فرضی خطره
قدیم مکہ میں ایک شخص تھا۔ اس کا نام روایات میں الحارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف بتایا گیا ہے ۔ اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کی دعوت پیش کی تو اس نے کہا :
إِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ الَّذِي تَقُولُ حَقٌّ وَلَكِنَّا إِنِ اتَّبَعْنَاكَ عَلَى دِينِكَ خِفْنَا أَنْ تُخْرِجَنَا الْعَرَبُ مِنْ أَرْضِنَا مَكَّةَ – (التفسير المظهري7 / 174)
ہم جانتے ہیں کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ بلاشبہ حق ہے۔ لیکن اگر ہم آپ کی پیروی کریں تو ہم کو ڈر ہےکہ عرب ہم کو مکہ کی سرزمین سے نکال دیں گے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے قرآن میں کہا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ اس ہدایت کا اتباع کریں تو ہم کو ہماری زمین سے اچک لیا جائے گا۔ وَقَالُوٓاْ إِن نَّتَّبِعِ ٱلۡهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفۡ مِنۡ أَرۡضِنَآۚ [القصص: 57] مکہ کے لوگوں کی سرداری اور معاش دونوں کا خاص ذریعہ یہ تھا کہ مکہ کے تمام قبیلوں کے بت انھوں نے کعبہ میں رکھ دیا تھا۔ اس طرح انہیں تمام قبائل عرب کی سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ اسی کے ساتھ یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اپنے اپنے بتوں پر نذر چڑھانے کے لیے مکہ آتے تھے۔ یہ تمام نذرا نے مکہ والوں کو ملتے تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خدا کا پیغام ان کے سامنے پیش کیا تو ان کی فطرت نے اس کے برحق ہونے کی تصدیق کی ۔ مگر ان کا ذہن اس سوال میں اٹک گیا کہ اگر وہ کہیں کہ خدا صرف ایک ہے ۔ بقیہ تمام دیو تا فرضی ہیں تو وہ اچانک تمام قبائل سے کٹ جائیں گے ۔ اس کے بعد ان کی سرداری بھی چھن جائے گی اور ان کی معاش بھی۔
ٹھیک یہی صورت موجودہ زمانے میں ہندستانی مسلمانوں کی ہے۔ ان کے سامنے قرآن کی بات رکھی جائے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق یہی صحیح بات ہے۔ مگر فورا ً ہی کچھ سوالات سامنے آکر انھیں اس کی طرف سے شبہ میں ڈال دیتے ہیں –––––– اگر ہم صبر واعراض کا طریقہ اختیار کریں تو ہندو ہمارے اوپردلیر ہو جائے گا۔ اگر ہم سیاسی شور و غل نہ کریں تو ملک میں ہونے والے سیاسی عمل سے ہم کٹ جائیں گے،اگر ہم مطالبہ اور احتجاج کا طریقہ چھوڑ دیں تو ہم اپنے دستوری حقوق سے محروم ہو کر رہ جائیں گے ۔ وغیرہ اس قسم کی تمام باتیں بلاشبہ شیطانی وسوسہ ہیں ۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔