برترحل

سوچنا (thinking) ہماری دنیا کا ایک ناقابلِ فہم حد تک عجیب عمل ہے۔ موجودہ زمانے  میں اس پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ ان تحقیقات نے انسان کے علم میں اضافہ کرنے سے زیادہ انسان کی حیرانگی میں اضافہ کیا ہے۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:

Dr. Rapaport. Toward a Theory of Thinking. 1951

W.E. Vinacke. The Psychology of Thinking. 1952

F.C. Bartlett. Thinking. 1958

Max Wertheimer. Productive Thinking. 1959

ان تحقیقات کے ذریعہ بے شمار نئی معلومات سامنے آئی ہیں ۔ ایک بات یہ ہے کہ انسانی ذہن کے اندر ہمیشہ ایک نہایت اہم عمل جاری رہتا ہے۔ علماء نفسیات اس کو ذہنی طوفان سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ ذہن کسی نئے چیلنج سے دو چار ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں وہ خود اپنی فطرت کے زور پر مسائل کے نئے حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ یہ عمل اس امکان کو بڑھا دیتا ہے کہ پیش آمدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کچھ بر ترحل آدمی کے سامنے آجا ئیں :

A process called brainstorming has been offered as a method of facilitating the production of new solutions to problems... These unrestricted suggestions increase the probability that at least some superior solutions will emerge . (357/18)

یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی حالت سے دو چار ہوتا ہے تو اس کے اندر چھپی ہوئی فطری صلاحیت کے تحت اس کے اندر ذہنی طوفان (brainstorming) کی ایک کیفیت جاگ اٹھتی ہے ۔ یہ طوفان اس کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ پیش آمدہ مسئلہ کا ایک برترحل (Superior solution) دریافت کرلے ۔ اور مسئلہ کا برتر حل معلوم ہو جانےکے بعد کامیابی اتنی ہی ممکن ہو جاتی ہے جتنا شام کے بعد صبح کا آنا۔

 اللہ کا یہ معاملہ کیسا عجیب ہے کہ اس نے مشکلات کو ہماری ترقی کا زینہ بنا دیا۔ اس نےاپنی قدرتِ خاص سے ہمارے" نہیں" کو ہمارے "ہے" میں تبدیل کر دیا۔

چیلنج کا جواب

انگریز مورخ ٹوائن بی (Arnold Toynbee) نے عالمی تاریخ کے گہرے مطالعہ کے بعد اپنی مشہور کتاب مطالعۂ تاریخ (A Study of History) لکھی جو ۱۲ جلدوں پرمشتمل ہے۔ اس میں ۲۱ تہذیبوں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ ٹوائن بی کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ چیلنج اور اس کا جواب (Challenge-response) میکانزم وہ چیز ہے جو قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔

ٹوائن بی کے مطابق، خارجی چیلنج ہی وہ لازمی عمل ہے جو افراد یا قوموں کے امکانات کو جگا دیتا ہے۔ تہذیب کا ابتدائی اور بنیادی مرحلہ ماحول کے ایسے چیلنج سے ظہور میں آتا ہے جو نہ اتنا سخت ہو کہ ترقی کو روک دے ، نہ اتنا موافق ہو کہ وہ تخلیقیت کو معطل کر دے۔قوم کی ایک تخلیقی اقلیت اس چیلنج کا جواب دیتی ہے اور قوم کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے:

The initial stage of a civilization is its growth, brought about by an environmental challenge, neither too severe to stifle progress nor too favourable to inhibit creativity, which finds a response among a creative minority that provides leadership to the passive majority. (X/76).

اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتیں (troubles) لوگوں کی صلاحیتوں کو جگاتی ہیں بشر طیکہ وہ اتنی زیادہ نہ ہوں کہ آدمی اس کے نیچے دب کر رہ جائے ۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مؤمن سب سے زیادہ تخلیقی انسان ثابت ہو سکتا ہے ، کیوں کہ مؤمن کے اندر سہنے اور تاب لانےکی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

عام انسان صرف اپنے آپ میں عقیدہ رکھتا ہے ۔ وہ صرف اپنی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ دوسری طرف مؤمن کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے علا وہ خدائے بر تر میں عقیدہ رکھتا ہے اور خدا کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ انسان کی قوتیں محدود ہیں ، خدا کی قوتیں لا محدود۔ اس بنا پر عام انسان کے لیے کسی نہ کسی مقام پر حد آجائی ہے۔ جب کہ مومن کے لیے کبھی حد نہیں آتی۔ جہاں مومن کی اپنی حد ختم ہو جائے ، وہاں اس کا خدا اس کی کمی کی تلافی کے لیے موجود ہوتا ہے۔ مؤمن دوسروں کے مقابلہ میں مصیبت اور مشکلات کو زیادہ برداشت کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ تخلیقی ثابت ہوتا ہے۔

 مصیبتیں کیوں آدمی کو تخلیقی بناتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصیبتیں انسان کے دماغ کے اجزاء (particles) کو جگاتی ہیں۔ وہ اس کی خوابیدگی کو بیداری بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آدمی کے اوپر مشکلات آتی ہیں تو اس کی سوچنے اور کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اس واقعہ کے پیش نظر یہ کہنا صحیح ہے کہ عام انسان کے دماغ کے اجزا ء صرف محدود طور پر جاگتے ہیں۔ جب کہ مومن کے دماغ کے اجزاء لامحدود طور پر جاگ اٹھتے ہیں۔ عام انسان کی تخلیقیت کی ایک حد ہے ، مگر مومن کی تخلیقیت کی کوئی حد نہیں۔

 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے (الطلاق: ۳) ارشاد ہوا ہے کہ تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ اللہ سے ڈرو ( المائدہ: ۳ ) اسی طرح فرمایا گیا ہے کہ اسے ایمان والو ، اللہ سے ڈرو، اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا (الاحزاب: ۷۱-۷۰)

 اس قسم کی آیتوں کا مطالعہ کیجیے ، اور پھر فطرت کے مذکورہ قانون کو سامنے رکھیے تو اس سے یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر جب بھی مشکلات و مصائب کا لمحہ آئے تو اس وقت جو ضروری کام کرنا ہے وہ یہ کہ ان کے اندر اعتماد علی اللہ کی کیفیت کو ابھارا جائے۔ اللہ پر توکل اور اعتماد ان کے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرے گا۔ اور جن لوگوں کے اندر سہار نے اور برداشت کرنے کی صفت ابھر آئے وہ مشکلات کے وقت ہیرو بن جاتے ہیں۔ وہ مشکلات کو اپنے لیے نفسیاتی ٹانک بنالیتے ہیں۔

اس دنیا میں مشکل کا پیش آنا بذات خود کوئی مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ مشکل پیش آنے کے وقت آدمی اس کو سہارنے کی طاقت کھو دے ۔ اس لیے مشکل پیش آنے کے وقت شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ یہ کوشش کرنا چاہیے  کہ آدمی کے اندر سہارنے اور برداشت کرنے کی طاقت جاگ اٹھے۔ مشکل کے وقت آدمی اگر پست ہمت ہونے سے بچ جائے تو اس کے بعد اس کا ذہن مزید طاقت کے ساتھ متحرک ہو کر اپنے آپ مسئلہ کو حل کرلے گا۔

عسر کے ساتھ یسر

ایک بار کا واقعہ ہے۔ میں مسلمانوں کے ایک اجتماع میں شریک ہوا۔ یہ اجتماع شہر کے ایک شاندار ہال میں کیا گیا تھا۔

 بے ریش اور باریش مسلمانوں سے ہال کی کرسیاں بھری ہوئی تھیں ۔ اجتماع کا پروگرام قرأت سے شروع ہونے والا تھا۔ مگر عین وقت پر معلوم ہو اکہ کوئی قاری یا حافظ اجتماع میں موجود نہیں ہے۔ چنانچہ کالج کے ایک استاد اسٹیج پر آئے۔ انھوں نے پارہ عم سے دو سورتیں سادہ طور پر پڑھ کر سنائیں ۔ سورہ والضحی اور سورہ الم نشرح ۔

اس ابتدائی کارروائی کے بعد تقریر میں شروع ہوئیں۔ ایک کے بعد ایک لوگ اسٹیج پر آنا شروع ہوئے۔ لوگوں کی پر جوش تقریروں سے ہال گونجنے لگا۔ تمام تقریروں کا خلاصہ صرف ایک تھا ––––––  اسلام آج مخالفانہ سازشوں سے گھرا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے دشمن ان کو فنا کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو آج ہر طرف تعصب ، ظلم ، سازش اور عناد کا سامنا ہے ۔ اسی قسم کی باتوں پر اجتماع شروع ہوااور اسی قسم کی باتوں پر آخر کار وہ ختم ہو گیا۔

 آخر میں میں مائک پر آیا۔ میں نے کہا کہ آپ حضرات نے اغیار کے خلاف تقریریں کی ہیں ، مگر مجھے خود آپ کے خلاف بولنا ہے۔ آپ کو دوسروں سے شکایت ہے، مجھےخود آپ سے شکایت ہے۔

آپ نے اپنا یہ اجتماع اگر چہ قرآن کی تلاوت سے شروع کیا ۔ مگر یہ تلاوت محض رسمی تھی،  بلکہ وہ قرآن کی نفی کے ہم معنی تھی۔ آپ لوگوں نے قرآن کو پڑھ کر قرآن کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

 آپ نے اپنے اجتماع کے آغاز میں سورہ الم نشرح کی تلاوت کی ۔ اس سورہ میں اللہ تعالی نے تکرار کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ مشکل کے ساتھ ہمیشہ آسانی ہوتی ہے، مشکل کے ساتھ ہمیشہ آسانی ہوتی ہے (فإن مع العسر يسراً ، إن مع العسریسراً )

قرآن کی اس آیت کے مطابق لازماً ایسا ہونا چاہیے  کہ موجودہ حالات میں اگر کچھ باتیں ہمارے خلاف ہوں ، تو اسی کے ساتھ کچھ باتیں ہمارے موافق بھی ہوں۔ قرآن کے لفظوں میں ، عسر کے ساتھ یسر بھی ہو ۔ مگر آپ سب لوگوں نے صرف غیر موافق باتوں (عسر) کا اعلان کیا ۔ آپ میں سے کسی نے موافق باتوں (یسر )کا انکشاف نہیں کیا۔ اس طرح آپ نے قرآن کے ایک جزء کا تو خوب ذکر کیا ، مگر قر آن کے دوسرے جزء کو آپ نے یکسر حذف کر دیا۔

یہودی یا اور کوئی فرقہ اگر قرآن کا ایسا نسخہ چھا پے جس میں قرآن کی ایک آیت کو نکال دیا گیا ہو تو ساری دنیا کے مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔ مگر خود مسلمان عملاً یہی کام کر رہے ہیں۔ آج ہر جگہ کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ  "عسر  "کے واقعات کا خوب چرچا کر تے ہیں ، مگر وہ "یسر" کے پہلوؤں کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔

 دوسرے لوگ اگر قرآن میں کمی بیشی کریں تو مسلمان اس کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مگر خود مسلمان یہی کام زیادہ بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں تو اس کاغلط ہونا کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

 لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں مگر وہ قرآن سے بے خبر ہیں ۔ لوگ اپنے جلسوں کا آغاز قرآن سے کرتے ہیں ، مگر وہ صرف رسمی تبرک کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اس سے رہنمائی لینے کے لیے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے چر چےکے باوجود قرآن کا فائدہ لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔

قرآن بلاشبہ قوموں کو اٹھانے والی کتاب ہے ۔ مگر قرآن کا یہ معجزہ اس قوم کے حق میں ظاہر ہوتا ہے جو قرآن کو اپنا رہنما

بنا ئے  نہ کہ ان لوگوں کے لیے جو قرآن کے الفاظ خوش الحانی کے ساتھ دہرائیں اور اس کے بعد اس کو بند کر کے طاق پر رکھ دیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom